Wednesday, 31 October 2018

The return of Smog - لاہور میں سماگ


The return of Smog - GOD FORBID - 31 Oct, 2018

لاہور میں سماگ کی واپسی خدانخواستہ

لاہور میں پچھلے سال کی طرح پھر سے سماگ کے آثار نظر آرہے ہیں اور اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ پھر زیادہ ہوجائے - رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سرحد کے پار بھارت میں فصلوں کو آگ لگانا ہے، جبکہ پاکستان میں پہلے سے پنجاب میں جنوری تک فصلوں کو آگ لگانے پر پابندی لگا دی چکی ہے - اصل وجہ لاہور میں درختوں کی کمی ہے ( جیسا کہ پچھلی حکومت نے اورنج ٹرین کیلئے لاہور میں ہزاروں درخت کٹوا دئیے ) ورنہ کچھ فصلوں کی کٹائی کرتے وقت انھیں آگ لگانے کا پہلے بھی رواج تھا - درختوں کی وجہ سے فضا خوشگوار رہتی ہے - اس لحاظ سے موجودہ حکومت کا پورے ملک میں شروع کیا گیا شجرکای کا منصوبہ ایک اچھا قدم ہے لیکن اس کے پھل آنے میں ابھی کافی وقت درکار ہے - فی الحال سماگ سے بچنے کے کیلئے ہمیں مختلف اقدام سے آگاہ ہونا ضروری ہے 

- PIC ABOVE IS OLD

خادم حسین کا لب و لہجہ اور انداز - Khadim Hussain's way



خادم حسین کا لب و لہجہ اور انداز

یہ تحریر میں نے نومبر ٢٠١٧ (دو ہزار سترہ) میں لکھی تھی جب فیض آباد میں دھرنا ہو رہا تھا - یہ ایک غیر سیاسی تحریر ہے - اس دھرنے کے بعد خادم رضوی نے اپنی سیاسی جماعت بنا لی اور اپنی پارٹی کا نام الیکشن کمیشن میں درج کروا لیا - سید رُومان اِحسان

بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَحِیم

اسلام آباد دھرنے پر ایک غیرسیاسی تحریر - کُھلے زہن سے پڑھیں

السلام علیکم!

اس وقت ملک ایک نازک دور سے گذر رہا ہے- اسلام آباد کے حالیہ دھرنے پر صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے- ہمیں کچھ بھی کہنے سے پہلے کئی بار سوچنا ہےکہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے- اچھے برے لوگ ہر جگہ اور ہر جماعت میں ہوتے ہیں لیکن صرف چند لوگوں کی وجہ سے اسلام کے خلاف عوام میں نفرت پھیل رہی ہے اور یہ بڑی تشویشناک بات ہے-

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لاکھوں جانیں قربان لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ دھرنے کے قائد خادم حسین کا لب و لہجہ اور انداز نہایت نامعقول رہا ہے- اگر کوئی یہ دعوٰی کرے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے لیکن نہایت غیراخلاقی اور ناشائستہ زبان استعمال کرتا ہے تو اس کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دین کے نام پر کسی گروہ یا جماعت کی سربراہی کرے- کیونکہ اگر سربراہ ہی ایسی بولی بولے گا تو اس کے نیچے لوگ ظاہر ہے اسی کی تائید کرتے ہوئے وہی زبان استعمال کریں گے اور اس طرح معاشرے میں ہم مزید بگاڑ کو فروغ دیں گے- ایک عام انسان کا گالی گلوچ جب اتنا بُرا لگتا ہے تو جب کوئی شرعی لبادہ اوڑھے (مکمل سنت کی داڑھی اور سر پر عمامہ) مجمعے میں گالی گلوچ کرے تو اس سے بڑھ کر فتنہ کیا ہوسکتا ہے؟

ختمِِِ نبوت کے قانون پر ردبدل کوئی غیرت مند مسلمان نہیں برداشت کرسکتا- لیکن ہم نے حکومت سے اپنے جائز مطالبات اسلام کی راہ پر چل کر ہی منوانے ہیں- جو اس راہ سے بھٹک گیا، وہ خود بھی گمراہ ہوا اور اس نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ ختمِ نبوت کے قانون پر اگر حکومت کے کسی نمائندے نے جان بوجھ کر یا غلطی سے کوئی قدم اُٹھایا ہے تو اس کے بعد دینی جماعتوں اور عوام کے شور پر وہ قانون واپس اپنی شکل میں کر دیا گیا تھا- یہ بات ہمیں پہلے اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے- اس کے باوجود کوئی جماعت یا گروہ، ملک کے دارلحکومت اسلام آباد میں اس طرح لوگوں کی زندگی اجیرن کرے اور دین کا نام لے کرصحیح راستہ اختیار کرنے کے بجائے مجمعے میں ناشائیستہ زبان استعمال کرے، عبدالستار ایدھی مرحوم کے خلاف زہر اُگلے اور نامور علماء کو بدنام کرے، یہ سب خاصی نامعقول حرکات ہیں-

یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد آپ کے سامنے صحیح حقائق رکھنا ہے- امید ہے کہ یہ بات دینی حلقوں میں پھیلائی جائے گی تاکہ عوام دین سے بدظن نہ ہوں-

شکریہ

Saturday, 27 October 2018

Friday, 26 October 2018

جواب نہیں آتا - No Answer


جواب نہیں آتا

ایک شخص بیٹھا رو رہا تھا - اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تجھے؟ اس نے کہا کہ میں اتنے اچھے دینی پیغام بھیجتا ہوں لیکن کسی کا جواب نہیں آتا - اسے بتایا کہ اے نادان، حضرت نوح علیہ السلام نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے لیکن صرف چند لوگ ایمان لائے، یہاں تک کے ان کے بیٹے نے بھی ایمان کی دعوت قبول نہیں کی اور وہ تو نبی تھے جن کا اخلاق اور ایمان کامل تھا، ہم تو خطاکار ہیں

پھر اسے کہا کہ تُو صبح چھ بجے اپنے دوست کو ایس ایم ایس کر کے دیکھ - یہ لکھیں کہ میں تجھے اپنی گاڑی میں لینے آرہا ہوں، چل بَٹ کے چنے کھانے چلتے ہیں۔ وہ فوراََ مان جائے گا اور اسی حالت میں اپنے گیٹ پر آجائے گا 

بات یہ ہے کہ یہ دنیا ہے، لوگ اپنا دنیاوی فائدہ دیکھتے ہیں - جس بات سے یا جس کام سے انھیں دنیاوی فائدہ پہنچے اس پر وہ فوراََ جواب دیتے ہیں - دینی پیغام پر کم لوگ ہی جواب دیتے ہیں

Thursday, 25 October 2018

COMMENTS - PM Imran Khan, Investment Conference, Riyadh


COMMENTS ON PM IMRAN KHAN SPEAKING IN THE SESSION AT INVESTMENT CONFERENCE IN RIYADH:

Khan Sahib spoke well in the session at the recent Investment conference in Riyadh. He was able to highlight the plight of Pakistan effectively and in a charismatic way. It is a treat to see such a Pakistani leader representing our country abroad. Even though we may have some disappointments associated with him but he deserves praise at this juncture.

Seeking financial help from Saudi government is not the best solution but to avoid or 'minimize' the IMF bailout as much as possible, it is not a bad overall deal / strategy for the government of Pakistan and consequently the nation. PM Imran Khan has also confided with the nation that Pakistan is acting as a mediator in the on-going crisis of Yemen.

As far as 'spiritual awakening' is concerned, a male moderator could have very well served the purpose or as a last resort, a female moderator dressed in traditional Islamic 'Abaya' with 'Niqab' (veil). The Arabs under the policies of Crown Prince Mohammad Bin Salman are becoming a little too liberal for comfort perhaps . . .

- S Roman Ahsan.

Wednesday, 24 October 2018

VIDEO - PM Imran's speech - Investment Conference - Riyadh


VIDEO - Prime Minister Imran Khan speaks at the FII Investment Conference 'Davos In the Desert' in Riyadh

LINK: https://www.youtube.com/watch?v=7vp5ZS4ssvQ&t=42s


FACEBOOK VIDEO - 24th October, 2018 - Imran Khan's reply to Bilawal



FACEBOOK VIDEO - 24th October, 2018 - Reply to Bilawal Zardari - (2 Minutes)

LINK: https://web.facebook.com/SiasiTv/videos/255758095129829/?hc_ref=ARSwusHbDg2t8VD0coi7TBqvw37bNPgLJlvU2lrgNt3DoFx-8ptCiaxVKjHpkIlaN3g&fref=gs&dti=512245202135806&hc_location=group

اس وڈیو کو دیکھنے سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ پاکستانی عوام کو سیاست سے پہلے پاکستان اور اسلام سے پیار ہونا چاہیئے - لیکن ہمارے کچھ علماء نے اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی، خاص طور پر فضل الرحمان جیسے سیاسی علماء نے - یہ ایک سیاسی عالم ہیں، دینی عالم نہیں جو عوام میں اسلام کو مقبول کرنے کیلئے کام کررہے ہوں - 

فضل الرحمان کی وجہ سے بہت سے عام مسلمان اسلام سے بیزار ہو رہے ہیں - اگر فضل الرحمان سیاست میں آنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی لیکن پھر خالص اسلام کی روح کے تحت تو کام کریں - یہ کیا بات ہوئی کہ وہ آصف زرداری اور اس جیسے دوسرے جیسے کرپٹ ترین سیاستدانوں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور اس طرح اپنی مہم جوئی کرتے ہیں؟ ثابت ہوا کہ فضل الرحمان کو اسلام سے زیادہ سیاست پیاری ہے ورنہ وہ اس قدر دو نمبر اشخاص کے ساتھ کبھی الحاق نہ کریں - اسلام بالکل بھی اس کی اجازت نہیں دیتا -   

عمران خان کوئی فرشتہ نہیں ہیں لیکن کم ازکم انھوں نے دوسرے سیاستدانوں کی طرح ملک کو کبھی نہیں لُوٹا - اسلئے ہمیں کم ازکم اچھے کاموں میں پاکستان کی حکومت کا ساتھ ضرور دینا ہوگا کیونکہ یہ کسی سیاسی پارٹی کا نہیں بلکہ پاکستان کی بقاء کا سوال ہے - دوسری صورت میں ہمیں کرپٹ ترین سیاستدانوں کا سامنا ہے اور ہمیں اپنے وطن کو ان کے ناپاک عزائم سے بچانا ہو گا - ان میں سے کئی سیاستادان پاکستان سے زیادہ انڈیا اور افغانستان سے مخلص ہیں، اور وہاں سے انھیں پاکستان کے خلاف چندہ ملتا ہے -

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ عمران خان بحیثیت وزیرِ اعظم پاکستان قوم سے وقتاَ فوقتاَ ٹی وی پر خطاب کرتے رہتے ہیں - ملک کے سربراہ کو قوم سے رابطے میں رہنا چاہیئے اور یہ ایک خوش آئین بات ہے - 

اب یہ وڈیو لنک پر کلک کریں - عمران خان کا پریس کانفرنس میں بلاول زراداری کو کرارا جواب انہیں کی نقل کرکے کیا کہا؟ 

ساتھ ہی ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ جہاں اسلام کا تعلق ہے، ہمیں اپنی آخرت کیلئے قدرے اچھے علماء  سے دین سیکھنا چاہیئے (کتابیں، لیکچر، وڈیو، دینی محفلیں وغیرہ کے زریعے اور ساتھ ساتھ روزی یا روزگار کیلئے مسلسل کوشاں رہنا چاہیئے کیونکہ دین اور دنیا الگ نہیں ہیں)

- by Syed Roman Ahsan

Sunday, 14 October 2018

TV Dramas - ڈراموں کی ڈرامے بازیاں


ڈراموں کی ڈرامے بازیاں

عندیل علی - 01 اکتوبر 2018

ڈرامے دیکھتے ہیں آپ؟ نیوز چینل پر نہیں فیملی چینلز پر۔ میں دیکھنا تو نہیں چاہتا ہوں لیکن دیکھنے پڑتے ہیں، کیا کروں والدہ بُرا مان جاتی ہیں، کہتی ہیں ہر وقت انگریزی فلمیں ہی دیکھتے رہتے ہو!

سچ بات تو یہ ہے کہ میں چڑ گیا ہوں آج کل کے بے کار، بے ہنگم اور بے تکے ڈراموں سے۔ سننے میں تو یہ میرا ذاتی مسئلہ لگتا ہے، لیکن ہے نہیں۔ دراصل یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ ان کا مقصد عوام کو تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ نوٹ چھاپنا رہ گیا ہے۔

اس بات کی تصدیق کے لیے آپ کسی ڈرامہ آرٹسٹ کے فیس بک پیج کو جا کر دیکھیے گا۔ وہ اس بات پر پُرمسرت نہیں ہوتے کہ وہ معاشرے میں کوئی تبدیلی لارہے ہیں بلکہ بس اسی بات پر اچھل رہے ہوتے ہیں کہ ڈرامے کی ریٹنگ اچھی آئی ہے۔

ریڈیو کے لیے دنیا کا پہلا ڈرامہ A Rural Line on Education سن 1921 میں لکھا اور پیش کیا گیا تھا۔ ٹی وی پر پہلا ڈرامہ The Queen's Messenger سن 1928 میں آیا۔

میرے بچپن کے کامیاب ترین ڈرامے ’چاند گرہن‘، ’کشکول‘، ’سنہرے دن‘، ’دھواں‘، ’انگار وادی‘، ’الفا براوو چارلی‘ اور ’نجات‘ تھے۔ ویسے جنجال پورہ بھی کم نہیں تھا۔ میرے والدین کے زمانے کے کامیاب ترین ڈرامے ’ان کہی‘، ’تنہائیاں’، ’آنگن ٹیڑھا’ اور ’جانگلوس‘ تھے۔ فہرست نہ صرف بہت لمبی بلکہ تڑنگی بھی ہے۔

لیکن پھر میں نے تنگ آکر ڈرامے دیکھنا ہی چھوڑ دیے۔ وجہ؟ ڈرامے دیکھ دیکھ کر ایک عجیب سی بے حسی، کڑواہٹ، کدورت، نحوست کا سا سماں بندھ جاتا ہے اور انسان کا اپنے آپ پر سے بلکہ انسانیت پر سے ہی اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ یہ جن ڈراموں کا میں نے ذکر اوپر کیا ہے یہ تقریباً تمام کے تمام 'سبق آموز' تھے۔

’وارث‘ نے اس زمانے کے مرد پرستانہ رویے کو اجاگر کیا، ’چاند گرہن‘ میں وڈیرہ شاہی، طاقت کا بے دریغ استعمال اور آخرکار قانون کی بالادستی دکھائی گئی۔ ’کشکول‘ میں بیوروکریسی کی نیک نیتی، شہادت اور معاشرے میں سول سوسائٹی کے قیام کا درس دیا گیا۔ ڈرامہ ’سنہرے دن‘ میں دکھایا گیا ہے کہ، فوجی بھی انسان ہوتے ہیں اور لوگ فوج میں شمولیت صرف آمر بننے کے لیے نہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ ڈرامہ ’دھواں‘ کا مرکزی خیال تھا کہ خفیہ ادارے والے بھی انسان ہوتے ہیں، اپنوں اور پیاروں کو وہ بھی کھو دیتے ہیں، روتے بھی ہیں اور محبت بھی کرتے ہیں۔

’انگار وادی‘ کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز جرائم کا پردہ فاش کرنا تھا۔ ’الفا براوو چارلی‘، ایک بار پھر فوج کی نمائندگی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح اور نجانے کتنے ہی محاذوں پر ہمارے نوجوان ملک کی حفاظت کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ’جنجال پورہ‘ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق تھا اور بتلاتا تھا کہ غربت کیا ہوتی ہے، ذمہ دار شہریت کیا ہوتی ہے، کس طرح خاندان بکھر جاتے ہیں۔ اور ’جانگلوس‘؟ وہ تو اتنا سبق آموز تھا کہ بیچ میں ہی رکوانا پڑا تھا۔

پچھلی دہائیوں کے تقریباً سب ہی ڈرامے سبق آموز اور عوام کی کردار سازی یا رائے سازی پر مبنی تھے۔ اور آج کے ڈرامے؟ بیوہ کردو، رنڈوے کی شادی کردو، اتنی امارت دکھاؤ کہ متوسط طبقے کو متلی ہونے لگے، کبھی بچے گم کردو، کبھی باپ گم کردو، بڑے گھر سے چھوٹے گھر میں لے آؤ، غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دو، بیماری میں جکڑ دو، تقریباً سب کو ماردو، لوگوں کو رلاؤ، خوب رلاؤ، ریٹنگ بڑھاؤ، ریٹنگ کے بڑھنے کا ڈھنڈورا پیٹو اور پھر ڈرامہ ختم۔

کیا کسی نے کوئی سبق حاصل کیا؟ پتہ نہیں۔ کہیں کسی کی دل آزاری تو نہیں ہوئی؟ ہمیں کیا۔ کیا ہمارے اس ڈرامے کے نتیجے میں معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آئی؟ کیا پتہ آئی ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نوجوان نسل نے کوئی غلط بات سیکھ لی؟ سیکھی ہو تو سیکھی ہو، ریٹنگ تو آ گئی ناں۔

پہلے زمانوں میں چینلز ذمہ دار ہوا کرتے تھے اور عوام کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا۔ آج ان کی نظریں چند لکیروں پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ یہ لکیریں ریٹنگ کی لکیریں کہلاتی ہیں۔ پاکستان میں مشکل سے چند سو گھرانوں میں ایک مشین لگادی گئی ہے۔ اس مشین کا کام یہ حساب رکھنا ہوتا ہے کون سا چینل، کس وقت، کتنی دیر دیکھا گیا اور بس کام ختم۔ ہر ہفتے یہ ریٹنگ چینلز کو یقین دلاتی ہے کہ کون سا پروگرام کتنا دیکھا گیا۔

عمرانیات اور تحقیقی اصولوں کے مطابق کسی بھی طبقے کی اگر رائے معلوم کرنی ہو تو، اس آبادی کے کم از کم 10 فیصد حصے کی رائے ضرور معلوم کی جائے۔ اس حساب سے پاکستانی عوام کا 10 فیصد کم و بیش 2 کروڑ نکلتا ہے اور اس 10 فیصد کا بھی آدھے سے زیادہ حصہ دیہات میں رہائش پذیر ہے۔

اب بتائیں چند شہروں کے چند سو گھرانوں پر مبنی رائے کو پوری قوم پر کیسے تھوپا جاسکتا ہے؟ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ریٹنگ کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ چینل دیکھا گیا، یہ ناپنا نہیں ہوتا کہ ردِ عمل کیا دیا گیا۔

لوگ واہیات پروگرامنگ دیکھ کر غصہ کررہے تھے یا اعلیٰ ہدایت کاری دیکھ کر داد دے رہے تھے، ان کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ بس دیکھ رہے تھے یہی کافی ہے۔ کڑھ رہے تھے یا سرشار تھے، اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

بس ریٹنگ کے میٹر کے حساب سے پروگرام دکھانے ہیں، کسی کو نہیں پسند آتا تو نہ آئے۔

Friday, 12 October 2018

Conditions Under Which People Become Closer With Allah


CONDITIONS UNDER WHICH PEOPLE BECOME CLOSER WITH ALLAH

Given below is a recent tweet by Islamic scholar Mufti Ismail Menk. His tweets are always full of wisdom and describe the essence of Islam in few words. After this, read further for some philosophies of Islam.

"Remember, if the Almighty wants good for someone, He will create situations to draw him closer to his Maker. This can be in the form of poverty, heartbreak, repentance, desperate needfulness & whatever else through various means. Understand His Plan & act accordingly!" - Mufti Ismail Menk.

Now after reading the above statement what do you think? We would just like to say that some Muslims believe they are blessed just because they are progressing in life or because they have stable careers or because they have more wealth and property. The fact is success in this world is not a sure sign that Allah is happy with that person. As mentioned in Qur'an, wealth is just a test from Allah upon a particular person.

Hence, whether someone is successful in this worldly life or facing severe difficulties (God forbid), our success in afterlife depends on how much efforts we are making to proceed on the path prescribed by Allah and His Prophet (pbuh). We have to certainly strive to be successful in this world but not at the cost of goals for afterlife. It is because striving in the way of Allah requires from us to give up or sacrifice few things also as and when the situation arises (habits, customs, ways, people etc.).

May ALLAH guide us and protect us - Aameen.

- S Roman Ahsan.

Wednesday, 10 October 2018

موت کے بعد انسان کی ۹ آرزوئیں - 9 wishes after death


موت کے بعد انسان کی ۹ آرزوئیں جن کا تذکرہ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱- يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭة النبأ‏ 40#)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۲- * يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي *

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ‏( ﺍﺧﺮﯼ ‏) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ 

‏( ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ #24 ‏)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۳- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ 

‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ #25)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۴- يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ 

‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #28 )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۵- يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا 

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍللہ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ 

‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ #66)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۶- يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا 

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ

‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #27)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۷- يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ 

‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ #73‏)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۸- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا 

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ﭨﮭﯿﺮﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ

‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻜﻬﻒ #42)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۹- يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ 

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔ 

‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ #27)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ جن کا ﻣﻮﺕ ﮐﮯﺑﻌﺪﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ، ﺍسی لئے ﺯﻧﺪﮔﯽ میی ہی اپنی ﺍﺻﻼﺡ کرناﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔ 

ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ہمیں ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎﮰ۔

آﻣِﻴﻦ ﻳَﺎ ﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴْﻦ

WORLD MENTAL HEALTH DAY - October 10


WORLD MENTAL HEALTH DAY - October 10

Today, 10th October, is World Mental Health Day. Mental or psychological illness appears in different forms. However, they don't tell you that some mental illnesses are associated with the attributes of the creative genius. For example, Bipolar Disorder though is a mental or psychological illness but the 'highs' and 'lows' of this disease produced creative people like the writers Earnest Hemingway, Sylvia Plath, Virginia Woolf, Ralph Waldo Emerson and many others in different creative professions. Some of them committed suicide but Islam provides us with the belief that suicide is strictly forbidden or haraam (a person doomed to hell afterwards) so it is better to bear the pain in this life and fight it.

Here's an article also by me published in THE NATION, magazine, (Jan. 2009) when I worked there as Sub-editor which briefly tells the life-story and struggle of a sufferer of Bipolar Disorder


Sunday, 7 October 2018