Sunday, 29 May 2022

URDU - Always truth - ہمیشہ سچ بولنا - 30 may, '22



ہمیشہ سچ بولنا - زندگی اور بول چال سے چھوٹے چھوٹے جھوٹ بھی نکالنا


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہمیشہ سچ بولتے تھے - اسلئے نبوت سے پہلے بھی وہ صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھے - اور ہم ؟ سیاستدانوں نے تو اس معاملے میں حد پار کر رکھی ہے -صرف چند سیاستدان سچے ہیں -  ایک خاتون نے موجودہ ملازمہ کو کہا کہ ہم تین دن کیلئے کہیں  جارہے ہیں، اسلئے چھٹی کر لو - اصل میں اس سے جھوٹ بولا کیونکہ ایک دوسری ملازمہ کو اس کی جگہ رکھ کر تین دن کیلئے پرکھنا تھا - اب اس جھوٹ کی کیا ضرورت تھی ؟ صرف یہ کہہ دیتی کہ ہمیں ضروری کام ہے، اسلئے تم تین دن کیلئے چھٹی کر لو ، چاہے موجودہ ملازمہ کچھ بھی سوچ لیتی - کم از کم بے جا جھوٹ سے تو بچ جاتی - 


ہم بہت ساری باتیں کرتے ہیں اور اللہ اللہ کرتے ہیں  ، لیکن چھوٹے بڑے چھوٹ بولنے سے نہیں بچتے - تو پھر کیا فائدہ ایسے اسلام کا ؟ کیا اس طرح ہمیں رُوحانیت نصیب ہو سکتی ہے ؟ 


سچائی ایک سفر ہے - جو سچا بندہ ہوتا ہے وہ بہت شروع سے سچ بولنے کے سفر کو اپنا لیتے ہیں - کم از کم کوشش تو کر سکتے ہیں ورنہ جو دنیادار ہیں وہ دنیاوی فوائد حاصل کرنے کیلئے بڑی بڑی کہانیاں گھڑتے ہیں - سب دنیا دار ایسے نہیں ہوتے لیکن بہت سے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں - 


امتحان عملی زندگی میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے کہ ہم کتنا سچ بولتے ہیں - یعنی نوکری ، کاروبار ، شادی وغیرہ - اس سے پہلے سچ بولنا اتنا مشکل نہیں ہوتا البتہ سچائی کا مسافر تب ہی سے اس راہ پر گامزن ہو جاتا ہے - اَللہُ اکبَر 


- سید رومان اِحسان (٢٩ مئی ، ٢٠٢٢)

Wednesday, 25 May 2022

(REVISED) - “Hope’s Flight” - by Roman Ahsan - Aug2010

 




“Hope’s Flight”

[by Roman Ahsan – August 2010]

The shades of darkness call for a change...

Thursday, 19 May 2022

Voice of Conscience - ضمیر کی آواز - May 20th, '22

 


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یہ مُلک لاکھوں جانوں کی قربانی سے بنا ہے۔ قوم کو ایک اعلیٰ زندگی عطا کرنے کے لیے یہ مُلک حاصل کیا گیا— لیکن افسوس! چند ہوس پرست‘ جونکوں کی طرح اِس کا خون چوس رہے ہیں — کسی غریب کو کیا فرق پڑتا ہے ‘اگر اُس پر ہندو ظلم کرے یا اُس پر مسلمان ظلم کرے۔غور کرنے کا وقت ہے—سنجیدگی اختیار کرنے کا لمحہ ہے۔

اگر ضمیر کی آواز پر کان نہ دھرا تو خاکم بدہن— مسجدِ قرطبہ— خدا نہ کرے۔ضمیر زندہ رہا تو فرد زندہ رہا۔فرد زندہ ہے تو قوم زندہ ہے اور قوم زندہ ہے تو مُلک سلامت ہے۔

خدا ہمیں بیدار بخت اور بیدار ضمیر بنائے— مُردہ ضمیروں نے ہمیں پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے— مُردہ ضمیر وہ ہے جو مُلک و قوم کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنی منفعت کی فکر کرے۔ اگر معاشرے میں باضمیر پیدا ہو گئے تو مُردہ ضمیر ویسے ہی رُوپوش ہو جائیں گے۔

کتاب: حرف حرف حقیقت

مضمون: ضمیر کی آواز

حضرت واصف علی واصفؒ