اس سال فروری 8 کے الیکشن سے پہلے صحافی ہارون الرشید کی لکھی ہوئی ایک تحریرسوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی ۔ اس میں یہ تھا کہ عمران خان صاحب نے اپنے دور حکومت میں اسلام کے حق میں اقدام کئے جیسے سیرت النبی کانفرنس کروائی ، تعلیمی نصاب میں نبی کریم صلی الله عليه و آلہ وسلم کی سیرت النبی پر مواد شامل کروایا ، اقوام متحدہ میں اسلام کے حق میں بہت شاندار تقریر کی ۔ یہ سب تو کیا لیکن افسوس یہ ہے کہ اس تحریر کو پھیلانے والوں کو اس بات کا علم ہونا چاہئیے کہ ہارون الرشید پی ٹی آئی کے ایک بہت بڑے معاون ہیں ۔ انھوں نے صرف عمران خان صاحب کے دور حکومت کے مثبت پہلو اجاگر کئے ۔
پہلے میں واضح کردوں کہ جو شخص پاکستان کے ساتھ مخلص ہے وہ خان صاحب کو کم ازکم ان کے سیاسی حریفوں سے بہت بہتر سمجھتا ہے ۔ لیکن بطور مسلمان ہمیں یہ بھی پتہ ہونا چاہئیے کہ خان کے دور حکومت میں کفر کو بھی مستحکم کیا اور اس سب کو مدینہ ریاست کے نیچے رکھا گیا ۔ اقلیتوں یعنی minorities کا خیال رکھنا اسلامی حکومت کا فرض تو بنتا ہے (جیسے ان کی تعلیم ، صحت اور سماجی حقوق) لیکن اس کے نام پر کفر کو مستحکم کرنا نہیں ۔
مختصر نیچے پی ٹی آئی حکومت کے وہ اقدام ہیں جو بنیادی طور پر شرکیہ ہیں ۔ ان اقداموں کے بارے میں سب کو بتایا گیا تھا ۔ اپنی طرف سے گھڑی ہوئی باتیں نہیں ہیں ۔ اس طرح کیا اللہ کی مدد آسکتی ہے ؟؟؟ کیا خان صاحب کوئی نبی ہیں نعوز باللہ ۔ کیا ہم اللہ اور اس کے رسول کی سکھائی ہوئی بنیادی تعلیمات چھوڑ کر ایک سیاسی رہنما کی اندھی تقلید کریں ؟ ہرگز نہیں ۔۔ جس کا جتنا مقام ہے اتنا ہی مقام دیں ۔ نہ مقام سے زیادہ بلند کریں اور نہ مقام سے گرائیں ۔
شرک سب سے بڑا گناہ ہے جو اللہ قیامت کے دن معاف نہیں کرے گا ۔ اگر ملک کا سربراہ نماز پڑھنے میں کوتاہی کرے کبھی کبھی تو وہ پھر بھی اس کا زاتی فعل ہے ۔
1- پاکستان میں موجود چار سو 400 مندروں کی حکومت کے خرچے سے renovation یعنی ان کی حالت کو ٹھیک کرنا شروع کیا گیا ۔ ایک اسلامی حکومت کا فرض صرف یہ بنتا ہے کہ وہ اقلیتوں کو اپنی عبادت گاہیں ان کے اپنے خرچے سے بنانے کی اجازت دے (اس میں بھی لیکن ایک حساب کتاب کے تحت اور حدود شامل ہیں) ۔ لیکن اسلامی حکومت کبھی اس میں مالی طور پر شرکت کرکے شرک کا حصہ نہیں بن سکتی ۔ فتح مکہ کے موقع پر سب سے پہلے خانہ کعبہ سے بت نکالے گئے ۔
2- سیالکوٹ میں ایک ہندو مندر پاکستان بننے سے پہلے کا گرا ہوا تھا ۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اس کی حکومت کے خرچے سے از سر نو تعمیر کر کے اس کو بحال کر دیا ۔ استغفراللہ ۔ اس سے پہلے کسی پاکستانی حکومت نے ایسا نہیں کیا ۔
3- لاہور کے شاہی قلعہ کے سامنے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا جس میں وہ گھوڑے پر بیٹھا ہوا ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ رنجیت سنگھ ایک مسلمان دشمن حاکم تھا جس نے اپنے دور حکومت میں لاہور کی بادشاہی مسجد کو گھوڑوں کا اصطبل بنایا تھا ۔ دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ اس طرح ایک مجسمے نصب کرنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے ۔ (پاکستان کی آرمی کی کاکول اکیڈمی میں 14 اگست 2023 کو قائداعظم کا بہت بڑا مجسمہ رکھا گیا ۔ وہ بھی غلط ہے اور پاکستان کے حافظ آرمی چیف کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس کی اجازت دیں ۔ اس نے اس موقع پر مہمانوں کے سامنے تقریر پر قرآنی آیات کی تلاوت بھی کی تھیں ۔ اس کا کیا فائدہ جب آپ دین کی بنیاد پر توجہ نہیں دے رہے ۔ افسوس کا مقام ہے ۔)
4- سکھوں کے پاکستان میں گردوارے کی توسیع کی گئی جس پر پی ٹی آئی کی حکومت نے حکومت کے خرچے سے 14 ارب لگائے ۔ سراسر غلط قدم تھا اور سکھ پھر بھی پاکستان کو ہر فورم پر گالیاں نکالتے ہیں ۔
5- عمران خان صاحب نے 2018 کے الیکشن سے پہلے بابا فرید (رح) کے مزار پر بشریٰ بی بی کے ساتھ حاظری دی ۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن زرا ٹھریں ۔ مزار میں داخل ہوتے وقت بی بی آگے تھیں اور انھوں نے نیچے چوکھٹ پر پورا جھک کر سجدہ سا کیا ۔ عمران خان نے بھی زوجہ کی تقلید کی اور بالکل ایسا ہی کیا ۔ مزار پر جانا شرک نہیں ہے لیکن اس طرح جھکنا شرک ہی بن جاتا ہے ۔ ہم مسلمانوں کو صرف اللہ کے آگے ہی جھکنا چاہیئے ۔
مختصر یہ کہ اب صرف امام مہدی نے آنا ہے ۔ دنیاوی طور پر ہمیں کوئی رہنما بہتر لگتا ہے تو اس کی حمایت ضرور کریں لیکن اسلام کے بنیادی اصول کو چھوڑ کر نہیں ۔
- SRA (28th April, 2024).
No comments:
Post a Comment