اداسیاں
یار یہ جو اداسیاں ہیں ناں
یہ کوئی بے سبب نہیں ہوتیں
ان میں ہوتی ہے ایک ذات اپنی
ان کی ہوتی ہے ایک بات اپنی
ان کے تیور کمال ہوتے ہیں
یہ کوئی بے سبب نہیں ہوتیں
ان میں ہوتی ہے ایک ذات اپنی
ان کی ہوتی ہے ایک بات اپنی
ان کے تیور کمال ہوتے ہیں
یہ کسی سے خفا نہیں ہوتیں
یہ کسی کو خفا نہیں کرتیں
ان کی عادت ہے بے ضرر کتنی
یہ کسی کو خفا نہیں کرتیں
ان کی عادت ہے بے ضرر کتنی
لوگ دنیا کے جو ستائے ہوں
وہ جو تنہائیوں کے مارے ہوں
ہاتھ یہ ان کا تھام لیتی ہیں
وہ جو تنہائیوں کے مارے ہوں
ہاتھ یہ ان کا تھام لیتی ہیں
اور سب سے بڑا ہے وصف ان کا
یہ کبھی بے وفا نہیں ہوتیں
یہ کبھی بے وفا نہیں ہوتیں
ہم ہی مردہ ضمیر لوگ ہیں بس
صرف الزام دیتے رہتے ہیں
بولتے ہیں برا اداسی کو
صرف الزام دیتے رہتے ہیں
بولتے ہیں برا اداسی کو
اس سے آنکھیں ملا کے دیکھو تو
کتنی معصوم ہے اداسی یہ
کتنی معصوم ہے اداسی یہ
جاں سے پیارے جو لوگ ہوتے ہیں
جو کہ بچھڑے ہوئے ہوں مدت سے
بس انہی کے سبب اداسی یہ
ہم کو جتنا اداس رکھتی ہے
ان کو اتنا ہی پاس رکھتی ہے!
جو کہ بچھڑے ہوئے ہوں مدت سے
بس انہی کے سبب اداسی یہ
ہم کو جتنا اداس رکھتی ہے
ان کو اتنا ہی پاس رکھتی ہے!
یار یہ جو اداسیاں ہیں ناں
ان کو محسوس کر کے دیکھو ناں
یہ کوئی بے سبب نہیں ہوتیں!
ان کو محسوس کر کے دیکھو ناں
یہ کوئی بے سبب نہیں ہوتیں!
(زین شکیل)
No comments:
Post a Comment