"موم بتی جلانا اور دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنا"
مجوسیوں (آگ پرستوں) کے یہاں بھی خدا کا تصور موجود ہے،
وہ آگ کو خدا تصور کرتے ہیں اور اس کو سامنے رکھ کر پوجتے ہیں
ان کے بقول اس طرح انکا خدا ان پر قہر نازل نہیں کرتا
وہ اس کو راضی کرنے اور اس سے خیر چاہنے کیلیئے اس (آگ) کو پوجتے ہیں۔
اسلام سے پہلے کی شریعتوں میں عبادات کے مختلف طریقے تھے
ُان میں ایک طریقہ "چُپ" رہنے کا بھی تھا،
یعنی چُپ رہ کر عبادت کی جاتی تھی،
چنانچہ اس کا واضح ذکر قران میں سورہ مریم میں ہے کہ جب حضرت مریم علیہ الرضوان کو غم لاحق ہوا کہ بے شوہر کی اولاد کے بارے میں
لوگ پوچھینگے کہ کہاں سے آئی تو کیا جواب دونگی؟
اس پر اللہ نے انکو طریقہ سُجھایا کہ انکو بتا دینا کہ تم نے "چُپ کا روزہ" رکھا ہوا ہے۔
اسلام نے آکر یہ دونوں طریقے ختم کیئے اور عبادات کے نئے طریقے متعارف کرائے۔
نماز ، ذکر اذکار، روزہ (کھانے پینے وغیرہ سے رُکنا نہ کہ بولنے سے) وغیرہ کو عبادات کے طور پر رائج کیا۔
بے کار بولنے سے چپ رہنے کو افضل تو قرار دیا لیکن چپ رہنے کو بذات خود عبادت قرار نہیں دیا۔ ابو داؤد کی حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
آج کل جو کسی کے مرنے پر "دو منٹ کی خاموشی یا موم بتی جلا کر" غم کا اظہار کیا جاتا ہے،
یہ طریقہ مسلمانوں کا نہیں ہے۔ اسلام نے طریقہ یہی سکھایا ہے کہ طیب نفس کے ساتھ نفل نیک اعمال کرکے اسکا ثواب میت کو پہنچایا جاسکتا ہے۔
چپ رہنے کا یا موم بتی جلانے کا کوئی فائدہ نہیں نہ اسکا کوئی ثواب۔
از
قاضی محمد حارث
No comments:
Post a Comment