بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
یہ مُلک لاکھوں جانوں کی قربانی سے بنا ہے۔ قوم کو ایک اعلیٰ زندگی عطا کرنے کے لیے یہ مُلک حاصل کیا گیا— لیکن افسوس! چند ہوس پرست‘ جونکوں کی طرح اِس کا خون چوس رہے ہیں — کسی غریب کو کیا فرق پڑتا ہے ‘اگر اُس پر ہندو ظلم کرے یا اُس پر مسلمان ظلم کرے۔غور کرنے کا وقت ہے—سنجیدگی اختیار کرنے کا لمحہ ہے۔
اگر ضمیر کی آواز پر کان نہ دھرا تو خاکم بدہن— مسجدِ قرطبہ— خدا نہ کرے۔ضمیر زندہ رہا تو فرد زندہ رہا۔فرد زندہ ہے تو قوم زندہ ہے اور قوم زندہ ہے تو مُلک سلامت ہے۔
خدا ہمیں بیدار بخت اور بیدار ضمیر بنائے— مُردہ ضمیروں نے ہمیں پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے— مُردہ ضمیر وہ ہے جو مُلک و قوم کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنی منفعت کی فکر کرے۔ اگر معاشرے میں باضمیر پیدا ہو گئے تو مُردہ ضمیر ویسے ہی رُوپوش ہو جائیں گے۔
کتاب: حرف حرف حقیقت
مضمون: ضمیر کی آواز
No comments:
Post a Comment