چرچوں کو آگ لگانا کیسے شروع ہوا ؟
[AS SHARED BY SOMEONE - IF THIS NOTE IS NOT AUTHENTIC OR CREDIBLE, THEN PLEASE NOTIFY]
فجر کے وقت کسی شخص نے دیکھا کہ جڑانوالہ سینما چوک کے پاس قرآن پاک کے کچھ اوراق زمین پر بکھرے پڑے ہیں اور ان پر کچھ نازیبا جملے بھی درج ہیں ۔ساتھ ہی ایک کھلا ہوا رقعہ پڑا تھا جس میں مسلمانوں کی توہین آمیز جملے بھی درج تھے، حیرانی کی بات ہے کہ لکھنے والے نے اس میں اپنا نام اور رقعے کے اوپر اپنی تصویر بھی چسپاں کر رکھی تھی ۔
عینی شاہد نے موقع پر قریبی مسجد کے امام قاری یونس کو بلایا ۔ انہوں نے وہ اوراق اکٹھے کیے اور ملزم کی تلاش شروع کردی ۔ پولیس نے ملزم کو شناخت کرکے گرفتار کر لیا ۔ اسی اثنا میں ایک شخص نے مسجد میں اعلان کرکے اہل محلہ کو جگایا اور بتایا ۔۔۔ لوگوں نے آو دیکھا نہ تاو ۔۔۔ ایک ہجوم تھا جو ڈنڈے ، لاٹھیاں اٹھائے مسیحی بستی اور چرچ کی جانب بڑھا۔ آن ہی آن میں ایک مرکزی چرچ اور دو چھوٹے چرچوں میں توڑ پھوڑ کرکے آگ لگا دی گئی ۔ کچھ کے گھر بھی جلائے گئے ۔۔۔ یہیں پہ بس نہیں کی ، مسیحی قبرستان پر چڑھ دوڑے ، قبرستان کی چار دیواری گرائی اور اور قبروں کو پاوں سے روندا ۔۔۔
جب تک پولیس آئی چرچ کو آگ لگا کر توڑ پھوڑ مکمل کر لی گئی تھی ۔ یہ تو تھا سارا واقعہ ۔
سوال یہ ہے کہ جس شخص نے یہ حرکت کی اور فرار ہوگیا اسے پکڑنا چاہیے تھا کہ بےگناہ لوگوں کے گھروں پر حملہ آور ہوکر ان کی عبادت گاہ جلا دی جاتی ؟
نہیں معلوم بےحرمتی کرنے والا نفسیاتی مریض تھا ۔۔۔ یا کوئی سازش تھی کہ شرارت ۔۔۔ یا ایک پلانٹڈ گیم تھی ۔۔۔۔ لیکن اس سے من چاہے نتائج حاصل کر لیے گئے ۔ پوری دنیا کو دکھایا کہ مسلمان کس قدر متشدد قوم ہیں ۔ ایک ہجوم تھا جو مشتعل تھا ۔ کسی ایک نے بھی معاملے کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش نہ کی ، بلکہ مسیحی عبادت گاہ کو مسمار کرنا کار ثواب جانا ۔
نہیں معلوم کہ اب پولیس کیا کاروائی کرتی ہے لیکن اسلام میں کہیں بھی غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو جلانے کا حکم نہیں ۔ ہمیں اس حرکت کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے ۔
ایسے واقعات کی آڑ میں ہمیشہ مذہب اسلام کو رگیدا جاتا ہے ، جبکہ قصور اس کے ماننے والوں کا ہوتا ہے ۔ دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں ۔
علماء کرام سے گزارش ہے کہ منبر سے آواز اٹھائی جائے ۔۔۔ اسلام کو بطور امن کا دین پیش کیا جائے ۔ متشدد گروہ کی ذہن سازی کرنے اور اکسانے کی بجائے ان کو بتایا جائے کہ توہین رسالت کے قانون کے تقاضے کیا ہیں ۔ جس شخص نے توہین کا ارتکاب کیا ہے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا جائے نہ کہ ایک جتھا بنا کر کسی کی عبادت گاہ کو مسمار کر دیا جائے ۔
نوٹ : اگر اس تحریر میں صداقت نہیں ہے تو نشاندہی کریں ۔ شکریہ
17th August, 2023
No comments:
Post a Comment