نویں محرم کی شب چراغ گل کر دیے گئے تھے
یہ وہ رات تھی کربلا کی سرزمین پر قیامت خیز خاموشی تھی
صبح دس محرم کی حق و باطل کا فیصلہ ہونا تھا
امام حسینؑ نے فرمایا
مگر جب چراغ دوبارہ روشن ہوا
ایک بھی چہرہ کم نہ تھا
سب کے سب اپنے امام کے ساتھ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے عشق کی آخری منزل پر کھڑے تھے۔
کربلا ہمیں صرف ماتم سوگ اور آنسو نہیں دیتی
یہ ہمیں ذہنی بیداری روحانی طاقت اور اخلاقی بصیرت دیتی ہے۔
نویں محرم کی شب ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ
اندھیرے میں جب سب کچھ چھن جائے تب وفاداری کا اصل رنگ ظاہر ہوتا ہے جب رشتے، جان، بھوک، پیاس سب خطرے میں ہوں، تب کردار اور نیت کی پہچان ہوتی ہے
چراغ گل ہونے پر جو ٹکا رہے وہی حسینؑ کا ساتھی ہوتا ہے۔
کربلا کی روشنی آج کے انسان کے لیے مشعل راہ ہے
ہر دور کا انسان اپنی زندگی میں یزید اور حسین کا سامنا کرتا ہے
یزید جو مفاد، جھوٹ، خوف اور خاموشی کی صورت میں آتا ہے۔
اور حسینؑ جو حق، عدل، صبر، وقار اور اللہ کے بھروسے پر ڈٹ جانے والا کردار ہے۔
نو اور دس محرم کو صرف "رسمی ایام" نہ بنائیں
ان دنوں کو سفرِ شعور بنائیں۔
اپنے دل سے پوچھیں۔
میں کس کے ساتھ ہوں؟
میری وفاداریاں کہاں ہیں؟
اگر چراغ بجھا دیا جائے، تو کیا میں رُکوں گا یا فرار ہو جاؤں گا؟
میں دیکھ چکا ہوں کہ چراغ بجھنے والی رات ہر انسان کی زندگی میں آتی ہے
جب اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے
حق کے ساتھ رہنا ہے یا آرام، مصلحت اور خوف کو چننا ہے۔
حسینؑ وہ رہبر ہیں جو ہمیں جینا سکھاتے ہیں وقار سے، سچائی کے ساتھ، اصولوں پر قائم رہتے ہوئے۔
آج کی رات صرف آنکھوں سے نہیں،
دل، عقل اور روح سے جانیے۔
عشقِ حسینؑ صرف آنسو نہیں، ایک طرزِ زندگی ہے۔

No comments:
Post a Comment