Sunday 8 November 2015

Terms by General Zia



جنرل ضیاء کی شرائط

باوجود اسکے کہ روس کے خلاف یہ پاکستان کی اپنی جنگ تھی اور چار سال تک یعنی 79 سے 83 تک پاکستان اکیلے لڑتا رہا لیکن جب امریکہ نے اس جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا تب جنرل ضیاء نے اسکو اس جنگ میں اپنی شرائط پر شامل کیا ۔۔۔۔۔ !!
حالانکہ اس وقت پاکستان کو اسکی شدید ضرورت تھی اور مجاہدین روسی ہیلی کاپٹروں کی وجہ سے شکست کے قریب تھے لیکن بدترین حالات میں بہترین بات چیت جنرل ضیاء کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک تھی اور امریکہ سے اس جنگ میں شمولیت کے لیے اپنی مرضی کی شرائط منوائی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
شروع میں جنرل ضیاء کو امریکہ نے 400 ملین ڈالر کی امداد کی آفر کی جسکو جنرل نے پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا دیا کہ "ہمیں یہ مونگ پھلی کے دانے نہیں چاہئیں" یہ اس وقت کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی جس پر کسی بھی جمہوری لیڈر کی رال بہہ جاتی ۔۔۔۔۔۔ لیکن جنرل کے پیش نظر کچھ اور معاملات تھےاور وہ مستقبل کی طرف دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
امریکہ نے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو تب جنرل نے ان شرائط پر معاملات طے کیے ۔۔۔!!
پہلی شرط یہ تھی کہ یہ امریکہ نہیں بلکہ پاکستان طے کرے گا کہ اسکو کیا چاہئے اور امریکہ پابند ہوگا کہ اس ضرورت کو پورا کرے ۔۔۔۔۔۔۔ امریکہ نے یہ شرط مان لی ۔۔۔۔۔۔!!
دوسری شرط یہ تھی کہ امریکہ کبھی خود اس جنگ کے نزدیک نہیں آئے گا اور پاکستان جیسے اپنی مرضی سے اس جنگ کو کنٹرول کر رہا ہے اسی طرح کرتا رہے گا اور اسلحے کی مجاہدین میں تقسیم بھی پاکستان خود کرے گا ۔۔ جنرل نے امریکہ کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ "اگر تم مجاہدین میں اسلحہ تقسیم کرو گے تو انکو آپس میں لڑوا دو گے جیسا تم نے ویت نام میں کیا تھا "۔۔۔
جنرل کا یہ اندیشہ بعد میں بلکل درست ثابت ہوا جب جنرل کی وفات کے بعد جمہوری بالشتیوں نے یہ کنٹرول امریکہ کے ہاتھ میں دے دیا اور امریکی ایلچی مسٹر ٹامسن نے اسلحے کی غیر مساوی تقسیم کے ذریعے مجاہدین میں آپس میں خانہ جنگی کروا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
امریکہ کو جنرل ضیاء کی اس دلیل سے سخت نفرت تھی لیکن اسکے باوجود وہ مان گئے جس پر کئی انڈین دانشوروں نے لکھا کہ " یہ بہت کڑوی گولی تھی جو جنرل ضیاء کے ہاتھوں امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے نے نگلی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
جنرل نے تیسری شرط یہ پیش کی کہ چونکہ ہم روس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اور جس کے جواب میں روس کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ سکتا ہے لہذا اسکے مقابلے کے لیے ہمیں جدید ترین جنگی جہاز اور اسلحہ درکار ہے تب اس وقت کے لحاظ سے سب سے جدید جنگی جہاز ایف 16 پاکستان نے حاصل کیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اس وقت صرف امریکہ ، اسرائیل اور پاکستان کے پاس تھے ۔۔۔۔۔۔ جنرل کے بعد آنے والے تمام لیڈر مزید کوئی جہاز حاصل نہ کر سکے سوائے ایک دو جہازوں کے جو آئی ایس آئی کی بعض "پھرتیوں" کی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے ملے ۔۔۔۔۔۔!!
( آج جب کہ امریکہ خود پھنسا ہوا ہے ان جمہوری لیڈروں کی ڈرون کی ٹیکنالوجی کے لیے شرمناک منتیں ترلے ملاحظہ کیجیے جن کو امریکہ نے مسترد کرچکا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جنرل کتنا ماہر سفارت کار تھا )
چوتھی اور سب سے اہم شرط جنرل نے امریکہ سے یہ منوائی کہ پاکستان ایٹمی پروگرام جاری رکھے گا لیکن امریکہ ہر سال اقوام متحدہ سے پاکستان کو یہ سرٹیفیکٹ دلوائے گا کہ پاکستان ایٹم بم نہیں بنا رہا ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسی شرط تھی جس پر انڈیا اور اسرائیل میں آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ کہ جب بچہ بچہ جانتا ہے کہ کہوٹہ " بم والی فیکٹری ہے " ۔۔ تب اقوام متحدہ اور امریکہ کیوں پاکستان کو یہ سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اپنی اس کامیابی کی بدولت پاکستان نے نہایت برق رفتاری سے اسی دور میں ایٹم بم بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اس جملے کے جواب میں کہ " ضیاء امریکہ کا ایجنٹ تھا" ہم ایک ممتاز بھارتی صحافی اور دانشور جناب ایم جے اکبر صاحب کے سن 88 میں " انڈیا ٹوڈے " میں چھپنے والے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔!
"صدرضیاءالحق کسی نہ کسی طرح امریکہ کے ساتھ دوستی اپنی شرائط پر قائم رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ صدر ضیاءالحق کا یہی امتیاز ہے کہ پاکستان کے تمام سول اور فوجی حکمرانوں میں واحد ہیں جنہوں نے پاکستان کے کسی موءقف میں ذرا بھی لچک پیدا کیے بغیر امریکہ سے اپنے معاملات کو درست رکھا"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سخت ضرورت کے باوجود جنرل ضیاء نے ان حالات میں امریکہ سے جو شرائط منوائیں سفارت کاری کی تاریخ میں وہ یقیناً ایک غیر معمولی کارنامہ تھا ۔۔۔۔۔ جب تعصب اور عجیب و غریب قسم کے جمہوری فلسفوں سے لوگوں کو آزادی ملی گی تب ضیاء کے ان کارناموں کو ضرور تسلیم کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!
تحریر شاہد خان

No comments:

Post a Comment