FROM FACEBOOK PAGE: https://www.facebook.com/abuyahya.inzaar/timeline
نرم گدا اور گرم صحرا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد آپ پر زیادہ تر نوجوان اور کمزور طبقات کے لوگ ایمان لائے۔جبکہ سردارن قریش نے آپ کی دعوت کو رد کردیا۔جب دعوت پھیلنے لگی تو ان سرداروں کو اندیشہ ہوا کہ یہ نیا مذہب ان کی طاقت کو مکمل طور پر ختم نہ کرڈالے۔ چنانچہ ابتدا میں انہوں نے مسلمانوں کوزبانی کلامی سمجھانے کی کوشش شروع کی ۔ اس میں ناکامی کے بعد انھوں نے
مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیے۔
اس ظلم کا سب سے بڑا نشانہ وہ غلام اور کنیز بنے جن کا کوئی والی وارث نہ تھا۔ان میں بلال، یاسر،صہیب،خباب، عمار،سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے نام نمایاں ہیں۔انھیں بری طرح مارا پیٹا جاتا،گلیوں میں گھسیٹا جاتا،بھوکا پیاسا قید کیا جاتا ،جلتے لوہے سے داغا جاتا اورصحرا کی تپتی دوپہر میں زمین پر ننگے بدن لٹاکر اوپر گرم پتھر رکھ دیے جاتے۔ مگر وہ لوگ دین پر قائم رہے۔
ہم لوگ اس طرح کی باتیں جب لکھتے یا پڑھتے ہیں تو ٹھنڈے کمرے، گرم لحاف، نرم گدے میں بیٹھے ہوتے ہیں۔اسے کوئی کہانی سمجھ کر سرسری طور پر گزر جاتے ہیں۔ہمیں نہیں احساس کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اوران کے اصحاب کی بے پناہ قربانیوں کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ کے لیے اس صورتحال سے نجات دلادی ہے۔ہمیں یہ احساس ہوجائے تو ہم پروردگار کے لیے سراپا شکر ،نبی رحمت
علیہ السلام اور ان کے صحابہ کے لیے سراپا درود بن جائیں۔
مگر ہم نرم گدے اور گرم لحاف میں سوتے ہیں اور فجر میں اٹھنا بھول جاتے ہیں۔پیٹ بھر کھاتے ہیں اور نماز چھوڑ دیتے ہیں۔کاروبار اور تفریح میں ہمیں اللہ کی یاد نہیں رہتی۔جتنا کچھ ہمارا اسلام ہے وہ ذہنی عیاشی،زبانی جمع خرچ ، روحانی انٹرٹینمنٹ کے سوا کچھ نہیں ۔ کاش ہمیں یہ احساس ہوجائے کہ پچھلوں کی قربانیوں نے ہمارے لیے دین پر عمل کتنا آسان کردیا ہے۔ ہمیں گرم صحرا میں ظلم سہہ کر نہیں نرم گدوں میں آسانی کے ساتھ دین پر عمل کرنا ہے۔
No comments:
Post a Comment