Saturday, 10 December 2016

(Urdu) - Khoobsoorat Nabi (s.a.w.w.)



حُلیہ مُبارک  - صلی اللہ عیلہِ وآلِہ وسلم 

الرحیق المختوم سے اقتباس - ہمارے خوبصورت نبی صلی اللہ علیہِ وآلِہ وسلم کیسے تھے؟


ہجرت کے وقت رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم اُمِ معبد خُزاعیہ کے خیمے سے گزرے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کی روانگی کے بعد اپنے شوہر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کے حلیہ مبارک کا جو نقشہ کھینچا وہ یہ تھا، چمکتا رنگ، تابناک چہرہ، خوبصورت ساخت، نہ توندے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی، جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر، سرمگیں آنکھیں، لمبی پلکیں، بھاری آواز، لمبی گردن، سفید و سیاہ آنکھیں، سیاہ سرمگیں پلکیں، باریک اور باہم ملے ہوئے ابرو، چمکدار کالے بال، خاموش ہوں تو باوقار، گفتگو کریں تو پُرکشش، دور سے (دیکھنےمیں) سب سے تابناک و پُرجمال، قریب سے سب سے خوبصورت اور شیریں، گفتگو میں چاشنی، بات واضح اور دوٹوک، نہ ًمختصر نہ فضول، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں، درمیانہ قد۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “آپ نہ لمبے تڑنگے تھے نہ ناٹے کھوٹے، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے۔ بال نہ زیادہ گھنگریالے تھے نہ بالکل کھڑے کھڑے بلکہ دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی۔ رخسار نہ بہت زیادہ پُرگوشت تھا، نہ ٹھوڑی چھوٹی اور پیشانی پست، چہرہ کسی قدر گولائی لیے ہوئے تھا۔ رنگ گورا گلابی، آنکھیں سُرخی مائل، پلکیں لمبی، جوڑوں اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی، سینہ پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر، بقیہ جسم بال سے خالی، ہاتھ اور پاوں کی انگلیاں پُر گوشت، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاوں اٹھاتے اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتے تو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے، دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم سارے انبیاء کرام ّ کے خاتم تھے۔ سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر جرات مند، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہدوپیمان کے پابندِ وفاء - سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے شریف ساتھی، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کو اچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہو جاتا، جو جان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کا وصف بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم جیسا نہیں دیکھا -


حضرت براء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم اہلِ کتاب کی مواقفت پسند کرتے تھے، اس لیے بال میں کنگھی کرتے تو مانگ نہ نکالتے، لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے - آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کا چہرہ سب سے خوبصورت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کے اخلاق سب سے بہتر تھے - ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کا چہرہ تلوار جیسا تھا، انھوں نے کہا : “ نہیں بلکہ چاند جیسا تھا -“ 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم پر سُرخ جوڑا تھا - مَِیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کو دیکھتا، اور چاند کو دیکھتا - آخر (اس نتیجہ پر پہنچا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں -


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی - لگتا تھا سُورج آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کے چہرے میں رواں دواں ہے - اور میں نے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا- لگتا تھا زمین آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کے لیے لپیٹی جا رہی ہے - ہم تو اپنے آپ کو تھکا مارتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم بالکل بے فکر -

ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف فرما تھا - پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں - یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ابو کبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا :

واذا نظرت الی اءسرہ وجھہ          بروقت کبرق العارض المتہلل

“ جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو -“


حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے:

امین مصطفی بالخیر یدعو          کضوہ البدر زایلہ الظلام

“آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم امین ہیں، چندہ و برگزیدہ ہیں، خیر کی دعوت دیتے ہیں، گویا ماہ کامل کی روشنی ہیں جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے -“

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریرو دیبا نہیں چُھوا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو- اور نہ کبھی کوئی عنبر یا مشک یا کوئی ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کی خوشبو سے بہتر ہو -

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کے بعد کوئی اور گذرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کے جسم یا پسینہ کی خوشبو کی وجہ سے جان جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم یہاں سے تشریف لے گئے ہیں-“

آپ صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مُہر نبوت تھی جو کبوتر کے انڈے جیسی اور جسمِ مُبارک ہی کے مشابہ تھی- یہ بائیں کندھے کی کری (نرم ہڈی) کے پاس تھی- اس پر مسوں کی طرح تِلوں کا جمگھٹ تھا۔  


No comments:

Post a Comment