Monday 20 November 2017

انگریزی زبان اور ہم (English language and us)



انگریزی زبان اور ہم

انگریزی زبان اگرچہ دنیا میں سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان ہے لیکن یہ زہانت کا معیار نہیں ہے- انگریزوں کے پاک و ہند برصغیر میں آنے سے پہلے اس خطے میں فارسی، عربی، اردو اور ایسی ہی زبانیں رائج تھیں- مسلمانوں نے اس سے صدیوں پہلے اپنی زبانوں میں ہی سب کچھ سیکھا، دریافت کیا اور نئی نئی ایجادات کیں البتہ زیادہ علمی ترقی عربوں نے ہی کی تھی- لیکن اصل بات یہ ہے کہ برطانیہ جو اس وقت کا سپرپاور تھا، اس نے برصغیر میں آہستہ آہستہ اپنے قدم جمائے اور یہاں کے باشندے مغلوب ہوتے گئے- انھوں نے اپنے رسم و رواج اور انگریزی زبان کو برصغیر میں غالب کیا تاکہ مسلمانوں اور ہندووں کو غلام بنالیا جائے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تک انگریزوں کے غلام ہیں، چاہے وہ برطانیہ کے انگریز ہوں یا امریکہ کے- 

ہمارے دوبارہ عروج کیلئے ایک راز یہ بھی ہے کہ اگر ہم اس غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زبانوں (اردو، فارسی، عربی وغیرہ) پر بھی دسترس حاصل کرنا پڑے گی- المیہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انگلش ہی سب کچھ ہے اور سارا علم بھی صرف اس میں ہی حاصل کرنا چاہیئے- موجودہ دور کا یہ تقاضہ ضرور ہے کہ ہمیں انگریزی لکھنی، بولنی اور سمجھنی آنی چاہیئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی زبانیں میں ایک اعلٰی معیار حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں- پس، ہمیں انگریزی کے ساتھ اپنی زبانوں کو بھی ساتھ چلانا ہے تاکہ ان میں جو خزانے ہیں، ان سے مستفید ہوسکیں- انشاءاللہ

بچوں کے معاملے میں ہمیں خاص احتیاط کی ضرورت ہے- ایک بزرگ نے کہا کہ پانچویں جماعت تک ہمیں اسکولوں میں ہر چیز اردو ہی میں پڑھانی چاہیئے- اس کے ساتھ عربی، فارسی اور دوسری علاقائی زبانیں اور قرآن کی ابتدائی تعلیم بھی دینی چاہیئے- انگلش کو چھٹی جماعت میں متعارف کرانا چاہیئے- مقصد یہ ہے کہ بچہ پہلے اپنی زبانوں پر بنیادی عبور حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اسے اپنی زبانوں کی اہمیت کا اندازہ ہو، پھر اس کے بعد وہ باہر کی زبانوں کی طرف آئے- 

یہ کوئی حتمی رائےنہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیا علامہ اقبال (رح) جیسی ہستی نے، جن کی اردو اور انگلش، دونوں پر دسترس بےمثال تھی، کیا انھوں نے شروع سے انگریزی نہیں پڑھی؟

آپ کا کیا خیال ہے اس موضوع کے بارے میں؟

تحریر: سید رُومان اِحسان

No comments:

Post a Comment