سانحہ باجوڑ سے سانحہ پشاور تک
ان کے والدین بھی انسان ہی ہیں جنہوں نے ان معصوموں کے لاشے اٹھائے۔
یہ بھی کل کو اس ملک کی ترقی میں برابر حصہ ڈالتے۔
انہیں میں کوئی مستقبل کا لالک جان کوئی کرنل شیر خان کوئی حمید گل ہوتا۔۔۔
ان کا بھی زندگی پر وہی حق تھا جو باقی پاکستانیوں مسلمان, سکھوں, ہندوؤں اور عیسائیوں کا ہے۔
ان کو بنیادی سہولیات اور جدید تعلیم ان کے گھر تک نہ ملی تو قصوروار کون۔؟
مدرسوں کو دہشت کے اڈے بنانے والے آج بھی زندہ اور حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں لیکن مدرسوں میں پڑھنے والے دین کے یہ ننھے معصوم طالبعلم قیمت چکا گئے۔
ان پر دکھ کیوں نہیں ہوتا
کیوں تمھاری آنکھ سے آنسو نہیں چھلکتے۔
کیوں ان کی بات کرتے وقت تمہاری آواز نہیں رندھتی۔
کیوں پشاور اور باجوڑ کے درمیان ایک لکیر کھینچ کر ان سے صرف نظر بچاتے ہو۔۔۔
ان کی شہادتیں کیا بے مول تھی۔؟
کیا ان کے خون سے اس ملک کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوئی۔؟
ارے او نادانوں ان کا نام لیکر خودکش حملہ کرنے والے خارجی کتے خود بھی رنجیدہ نہیں ان کی شہادتوں پر۔
انہیں امریکہ نے ڈرون حملے میں مارا ہی اس سازش کو پروان چڑھانے کوتھا جس کی آخری قسط امریکی خوارجی طالبان نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں انجام دی۔
ہاں باجوڑ ایجنسی کے مدرسے اور پشاور آرمی پبلک سکول میں جو سانحات ہوئے دونوں امریکہ کی پلاننگ سے جڑے ہیں۔
اس لیئے یہ تفریق اور تخصیص ختم کرو اور سب کو ایک ہی درجہ دو جو سرورکائنات صل اللہ علیہ والہ وسلم نے دیا تھا, امت مسلمہ۔
یہ بھی ہمارے بچے ہیں بلکل آرمی پبلک سکول کے بچوں کی طرح۔۔۔۔۔۔
مجھے مت سمجھانا اب اپنی فرقہ ورانہ منطق اور حیوانیت کی انسانی دلیلیں۔
یہ بھی مستقبل تھے اس قوم کا۔
ان کی لاشوں کو سہارا دیتے, دو چار آنسو بھلے دکھاوے کے ہی بہاتے, ان کو بھی ساری دنیا میں مظلوم ثابت کرتے پرائم ٹائم پر, ان کے والدین کو بھی حوصلہ دیتے تو طاغوت کی سازش مر جاتی, دم توڑ دیتی اور دفن ہوجاتی تو آگے چل کر سانحہ پشاور جیسا سانحہ نہ رونما ہوتا۔
لیکن ہماری ازلی بے حسی, بے غیرتی اور فرقہ ورانہ اذیت ناک سوچ تو جیت گئی لیکن طاغوت کو مضبوط اور بلوان کرگئی کہ لو سرکار وہ کرو جو کرنا چاہتے ہو۔
سانحہ باجوڑ کا تسلسل تھا سانحہ پشاور اور سانحہ باجوڑ کا مقصد قطعی مختلف نہیں تھا سانحہ پشاور سے۔
اگر سمجھو تو ان معصوم بچوں کی روحوں کو ایصال ثواب ہی پہنچادو ان کو دو گھڑی یاد کرکے, ان کے لیئے رو کر اور انکے لیئے بول کر۔
آج ذرا نہیں دوستو بہت سارا سوچو۔
No comments:
Post a Comment