نئے سال کے رنگ اور ہم
آج سے کوئی بیس سال پہلے چچا پاکستان آئے ہوئے تھے- وہ ١٩٦٠ (انیس سو ساٹھ) کی دہائی سے سوئیڈن چلے گئے تھے اور ایک ہونہار آرٹسٹ تھے جن کی پینٹنگز کی اب بھی نمائش ہوتی ہے اگرچہ وہ قوت گویائی اور سماعت سے محروم تھے-
وہ ویسے تو آزاد خیال اور لبرل شخص ہیں لیکن پھر بھی اسلام پسند ہیں- نئے سال کا موقع تھا اور میں نےانھیں جنوری کے شروع میں نئے سال کی مبارک دی تو انھیں نے اشاروں کی زبان میں کہا “میں کوئی کرسچن ہوں؟ میں نہیں یقین کرتا اس میں“- میں تھوڑا چونک گیا لیکن چپ کر گیا-
آج صورتحال بہت تجاوز کرگئی ہے- اپنے کاروبار کو چمکانے کیلئے کمپنیاں اور شوبزنس والے کافی بڑھ چڑھ کر اور بڑے پیمانوں پر نیا سال مناتے ہیں اور ہم بغیر سوچے سمجھے ان کے خریدار بن جاتے ہیں-
نیا سال کیا ہمیں منانا چاہیئے جبکہ پوری مسلم دنیا پر اتنا ظلم ہو رہا ہے اور قتل و غارت ہو رہا ہے؟ اور کیا اسلام کے مطابق نیا سال منانا جائز ہے؟ پاکستانیوں کی عیاشیاں ختم نہیں ہو رہیں اور انھیں کسی بات کی پرواہ نہیں- کاش ہماری آنکھیں کھلیں- ہلکی پھلکی مبارکباد دینے اور دعا کرنے میں کوئی مظائقہ نہیں لیکن یہ وقت بیدار ہونے کا ہے، غافل رہنے کا نہیں -
سارا قصور حکمرانوں کا نہیں جن پر ہم سب کچھ الزام تھوپ کر بری الزماں ہو جاتے ہیں- ہمیں اپنے آپ کو بھی ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی ہے- صرف کوشش درکار ہے - - -
- تحریر: سید رُومان اِحسان
No comments:
Post a Comment