ہم زندگی کیسی گذاریں؟ وقت کا کیا تقاضہ ہے؟
اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہو گی، یہ دنیا کی زندگی قیامت کے دن ایک چھوٹے سے خواب کی مانند محسوس ہو گی، اسلئے اس سے زیادہ دل نہیں لگانا چاہیئے ۔
جہاد اور مجاہدین کا وقت قریب آرہا ہے ان شاءاللہ ۔ بیچارے لبرل ابھی بھی عیاشیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے اور ہم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔
جو لوگ دین پر عمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کیلئے اقبال کا یہ شعر بھی ضروری ہے:
دِل پاک نہ ہو تو پاک ہوسکتا نہیں انسان
ابلیس کو بھی آتے تھے ورنہ وضو کے فرائض بہت
دنیا میں رہتے ہوئے جائز طریقے سے کمانا اور تفریح ٹھیک ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو سامنے رکھنا چاہئے (صرف کوشش درکار ہے) اور آخر ت کو بھولنا نہیں ۔
واصف علی واصف (رح) نے بہت خوبصورت بات کی ہے - “آج کا اِنسان صرف دولت کو خوش نصیبی سمجھتا ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے-“
اور سیدھی سی بات ہے کہ جب دنیا بھر میں ہر طرف مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہو تو خدانخوستہ ہماری باری بھی آسکتی ہے- پھر ہم کیسے عیاشیوں میں وقت برباد کر سکتے ہیں؟ یہ وقت تو توبہ اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کا ہے- دنیا کے حالات کس طرف جارہے ہیں، ان پر غور و فکر کرنا چاہیے- ہمارے لئے یہ اشارے ہیں جن کر رد کردینے میں ہمارے لیے نقصان ہے-
جو شخص مر گیا، اس کی قیامت وہیں شروع ہو گئی- اگر اس کی موت اس حالت میں آئی کہ وہ اللہ کی مان کر چل رہا تھا یا کوشش کررہا تھا تو وہ فلاح پا گیا- اس زندگی میں ہم چھوٹی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر پاتے، پھر آخرت کا عذاب تو قرآن میں واضح ہے نافرمانوں کیلئے- اللہ ہمیں اس کے پسندیدہ بندوں میں شامل کرے - آمین
دینی فرائض جن کا تعلق عبادات سے ہے، اس کے علاوہ بھی ہمیں اپنے روزمرہ کے معمولات کو دین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیئے- مردوں کو چاہیئے کہ اپنے علاقے کی مسجد میں جمعے کے علاوہ بھی ضرور جائیں اور دن کی نمازیں وہاں پڑھیں- ہر علاقے میں اب تو ایک سے زیادہ مسجدیں ہوتی ہیں، اسلئے ان میں سے ایک کو پسند کرلیں - مولوی صاحب جیسے بھی ہوں، ہم نے تو اللہ سے دل لگانا ہے- اگر آپ کو کوئی مولوی صاحب بالکل پسند نہیں تو کسی دوسری مسجد کو پکڑ لیں بےشک - آفس میں ہوتے ہیں تو وہاں بھی باجماعت نماز کر سکتے ہیں اور شام کو گھر آ کر کم از کم عشاء کی نماز تو اپنے علاقے کی مسجد میں پڑھ سکتے ہیں۔
ریسٹورنٹ، کلب اور سپر سٹورز میں جانا کم ہو جائے تو پھر مسجد میں جانا آسان ہو سکتا ہے- ریسٹورنٹ، کلب اور سپرسٹورز میں ضرورت کے تحت جائیں لیکن ان میں زیادہ محو نہیں ہونا چاہیئے-
زندگی جنت کبھی نہیں بن سکتی، اسلئے ہمیں اپنے ارد گرد زیادہ سہولیاتِ زندگی اکٹھی نہیں کرنی چاہیئے ورنہ اللہ کی طرف رُحجان میسر نہیں ہو سکتا- ہر چیز ضرورت کی حد تک ٹھیک ہوتی ہے اور کسی کے پاس کیا ہے، ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہیئے ورنہ انسان ساری زندگی خواہشات کے پیچھے بھاگتا رہے-
ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلمیں ہم دیکھ کر انھی کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں- اس کو بہت کم کرنا ہوگا- اگر ہمارے زہن میں فلموں کے ہیروز اور ہیرونیں سمائی ہوئی ہوں تو پھر اسلام کی طرف حقیقی معنوں میں رُحجان نہیں ہو سکتا- یہ بہت کام کی بات ہے، ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے- آجکل کی فلمیں تو خاص طور پر نہایت نامعقول ہیں اور افسوس یہ ہے کہ پاکستان میڈیا بھی بہت خراب کررہا معاشرے کو- اس جادو سے باہر نکلنا ہو گا- ٹی وی صرف ضرورت کے تحت دیکھیں-
اسی طرح خواتین بھی اپنے حساب سے دینی فرائض اور دینی محفلیں کر سکتی ہیں جن میں نمودونمائش نہ ہو اور اللہ کی خوشنودی درکار ہو-
اپنے قریبی لوگوں کا خیال رکھنا اور پھر غریبوں، ناداروں کی مدد کرنا بھی اللہ کے ہاں مقبول فعل ہے- ان سب میں توازن رکھنا چاہیئے-
یہ دور فتنوں کا دور ہے اور افراتفری کا دور ہے- آخری زمانہ شروع ہو چکا ہے بہت سے علماء اور اللہ والوں کے مطابق- امام مہدی (ع) کے ظہور، دجال اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دوبارہ نزول پر ضرور کچھ نہ کچھ علم حاصل کریں-
اللہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلائے - آمین
تحریر: سید رُومان اِحسان
No comments:
Post a Comment