ڈارک ویب، زینب کا قتل ... خوفناک انکشافات
جمیل فاروقی 20 جنوری 2018
بنتا تو یہ ہے کہ شیخ الشیوخ حضرت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان اور آصف علی زرداری کی متحدہ اپوزیشن اور اس کے اپوزیشن کے بینر تلے مال روڈ پر ہونیوالے فلاپ شو کی بات جائے، لیکن ہر خبر کے بعد نئی خبر کا پیچھا کرنے کی بجائے میری ذمہ دارانہ سوچ مجھے زینب قتل کیس سے جڑے چشم کشا انکشافات سے روگردانی کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہی۔
ایسے ہولناک حقائق کہ آپ کی روح کانپ اٹھے اوراس کے تانے بانے ایسے ایسے بارعب لوگوں سے ملتے ہیں کہ پڑھ کر آپ اپنے ملک میں جاری اس دھندے کے پیچھے چھپے کرداروں کا ایک مرتبہ تعین کرنے کا ضرور سوچیں گے۔ زینب قتل کیس کہنے کو اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کی ایک عام سی واردات لگتی ہے، لیکن اس قتل کے پیچھے اتنے ہولناک حقائق ہیں جسے قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ معاملہ سیریل کلنگ (Serial Killing) کا ہو یا ٹارگٹڈ ریپ (Targeted Rape) کا لیکن یہ طے ہے کہ سکیورٹی اداروں کی اس قتل اور ایسی کئی دیگر وارداتوں سے جڑے حقائق پر پردہ ڈالنے ہی میں عافیت ہے۔ جو پردہ اٹھائے گا، اس کا انجام بھیانک ہوگا کیونکہ یہ مافیا بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ عام جنسی تشدد اور شہوت سے جڑی واردات میں قاتل کارروائی کرتے ہیں اور قتل کرکے ثبوتوں کو صاف کرنے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں لیکن جنسی زیادتی سے جڑے اس ہولناک قتل کے دوران زینب کی دونوں کلائیوں کو چھری سے کاٹا گیا، گلے کو پھندے سے جکڑا گیا، جسم پر بے پناہ تشدد کیا گیا، اعضائے مخصوصہ کو تیز دھار آلے سے نشانات پہنچائے گئے اور زبان کو نوچا گیا۔ ایسا عام طور پر جنسی زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں نہیں ہوتا۔ ایسا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے اور وہ مقصد ہے، بے پناہ پیسے کاحصول۔ پولیس حقائق سے پردہ اٹھائے یا نہ اٹھائے۔
پیسے سے جڑے جن حقائق سے میں پردہ اٹھانے جا رہا ہوں اس کے لیے آپ کو اپنے دلوں کی دھڑکنوں کو تھامنا ہوگا۔ دنیا میں انٹر نیٹ کی ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جسے گوگل (Google) تک سرچ نہیں کرسکتا۔ یہ کمیونٹی دنیا کے مختلف حصوں سے انسانی اعضاء کی خرید و فروخت سمیت بچوں کے ساتھ جنسی فعل (Child Ponography) اور بچوں پر جنسی تشدد کے بعد ان کے تشدد زدہ اعضاء کی تشہیر سے وابستہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کمیونٹی سے جڑے لوگوں کو اپنے اپنے ٹاسک پورے کرنے کے لاکھوں ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، اور پیمنٹ کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خفیہ ایجنسیز کو بھنک تک نہیں پڑ سکتی۔ اس کمیونٹی تک ایک عام صارف کی رسائی نہیں ہوتی بلکہ مکمل چھان بین کے بعد دنیا بھر سے سب سے زیادہ قابل اعتماد (Most Trusted) اور قابل بھروسہ لوگوں کو اس کمیونٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔ ورلڈ وائیڈ ویب (www) یعنی انٹر نیٹ پر موجود جنسی ہیجان اور انسانی جسمانی اعضاء کی خرید و فروخت کے گورکھ دھندے سے جڑی اس حقیقت کو ڈارک ویب (DarkWeb) یا ڈارک نیٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی جریدوں کے 2007 کے اعداد و شمار کے مطابق اس دھندے سے وابستہ لوگوں کی تعداد چار اعشاریہ پانچ ملین ہے جو کروڑوں ڈالر کی تجارت سے جڑی ہے۔ جنوری 2007 سے دسمبر 2017 تک اس کاروبار کے صارفین اور ناظرین کی تعداد میں خطرناک حد تک پانچ سو گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
قانونی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی اس دھندے تک واضح رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اعداد شمار کا یہ تخمینہ اس سے بھی بڑھ کر ہوسکتا ہے۔ اس دھندے کا سب سے اہم جزو پیڈوفیلیا (Pedophilia) یا وائلنٹ پورن انڈسٹری ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ بچوں یا بچیوں سے جنسی فعل کرتے ہیں یا انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ یہ ڈارک ویب کی سب سے زیادہ منافع پہنچانے والی انڈسٹری ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے بچے اور بچیاں ڈارک ویب پر بیچے جانے والے مواد کا آسان ترین ہدف ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، افغانستان اور نیپال شامل ہیں۔ یہاں پر بھارت میں ہونیوالے رادھا قتل کیس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔
2009 میں بھارتی شہر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ سے رادھا نامی چھ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے دوران شدید جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئی تھی، زبان نوچی گئی تھی اور اعضائے مخصوصہ پر چھریوں کے وار کیے گئے تھے۔ ممبئی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات قاتل کے نفسیاتی ہونے کے زاویے پر کیں اور قاتل کو سیریل کلر کا نام دے کر فائل کو بند کر دیا تھا، لیکن اصل میں معاملہ یہ نہیں تھا۔ ٹھیک دو سال بعد ممبئی ہی میں بیٹھے ہوئے ایک ہیکر نے ڈارک ویب کی کچھ جنسی ویب سائیٹس کو ہیک کیا تو وہاں اسے رادھا کی ویڈیو ملی۔ ویڈیو پر دو سال قبل کیے جانے والے لائیو براڈ کاسٹ (Live Broadcast) کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔ ہیکر نے ممبئی پولیس کو آگاہ کیا تو تفتیش کو پورن انڈسٹری سے جوڑ کر تحقیقات کی گئیں۔
ان تحقیقات کے بعد ہولناک اور انتہائی چشم کشا انکشافات سامنے آئے۔ رادھا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے انٹر نیٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کے ساتھ کئی لوگوں نے ریپ کیا۔ ہاتھ اور کلائیاں کاٹنے کے ٹاسک ملے تو ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئیں۔ اعضائے مخصوصہ پر چھریاں مارنے کا ٹاسک ملا تو بے دردی سے چُھریاں ماری گئیں۔ اور اس براڈکاسٹ کے لیے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ تحقیقات کا دائرہ اور بڑھایا گیا تو بڑے بڑے بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک لوگ اس قتل کی واردات سے جڑے ہوئے پائے گئے۔ پولیس والوں کے پرَ جلنے لگے تو فائل بند کردی گئی اور آج تک قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی زینب قتل کیس میں بھی ہوا ہے۔
قصور میں جنسی درندگی کے بعد تشدد اور پھر قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ زینب قصور شہر میں قتل کی جانے والی بارھویں بچی ہے۔ پولیس کہتی ہے قاتل سیریل کلر ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کی شکل واضح ہونے کے باوجود غلط خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔۔ پولیس کی یہی حرکتیں ہیں جس کے باعث ان بارہ بچیوں میں سے ایک بھی مقتولہ بچی کا کیس آج تک حل نہیں ہوسکا۔ کیا پولیس واقعی اتنی نااہل ہے یا کیس اتنا ہی سادہ ہے؟ اصل میں معاملہ یہ نہیں بلکہ معاملہ مبینہ طور پر مقامی ایم این اے، ایم پی اے اور اس دھندے میں ملوث پولیس کے اعلیٰ عہدیداران کو بچانے کا ہے۔اس دھندے سے وابستہ بزنس میں بڑے بڑے نام ملوث ہیں۔
2015 میں قصور شہر ہی میں ڈھائی سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ریپ اور بعد ازاں ویڈیوز بنانے کا جو معاملہ میڈیا نے اٹھایا تھا، اس کے پیچھے بھی بہت بڑے مافیا کا ہاتھ تھا۔ مقامی حکومتی عہدیداروں، ایم این اے اور ایم پی اے کے کہنے پر پولیس نے مبینہ طور پر اس کیس کی فائل کو بند کردیا تھا کیونکہ اس کیس کے تانے بانے بین الاقوامی طور پر بد نام زمانہ چائلڈ پورنوگرافی (Child Pornography) اور وائلنٹ پورن سے ملتے تھے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ جرم میں ملوث افراد اتنے بااثر ہیں کہ عام آدمی انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ زینب اور زینب سمیت دیگر بچیوں اور بچوں کا قتل رادھا قتل کیس سے بہت مشابہت رکھتا ہے، لیکن پولیس غلط خاکہ تیار کرنے سے لے کر تحقیقات غلط زاویے پر چلانے تک ملزمان کو ہر طرح سے پروٹیکٹ کر رہی ہے۔
ذرا سوچیے کہ زینب یا دیگر بارہ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، مبینہ طور پر لائیو براڈ کاسٹ یا ویڈیو بناکر نوٹ چھاپے گئے،لاوارث سمجھ کر لاش کو کچرے میں پھینک دیا گیا لیکن پولیس اسے محض ایک جنسی زیادتی کا کیس بنانے پر تلی ہوئی ہے۔۔ اس قتل کا ڈارک ویب سے جڑے ہونے کا واضح ثبوت کٹی ہوئی کلائیاں اور جسم پر تشدد کے واضح نشانات ہیں جسے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کھل کر بیان کیا گیا ہے۔۔
اب بھی اگر حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے قتل میں ملوث بڑے بڑے ناموں کو بچانے کی کوشش کی گئی تو آپ اور ہم میں سے کسی کی بھی بہن یا بیٹی ڈارک ویب سے جڑے اس گورکھ دھندے کی بھینٹ کبھی بھی چڑھ سکتی ہے، اس لیے اپنی سوچوں کے زاویوں کو مثبت ڈگر پر چلاتے ہوئے اس مافیا کے خلاف یک زبان ہوجائیں، ایک ہوجائیں اور اس دھندے میں ملوث چہروں کو بے نقاب کریں۔ ایک ۔۔ صرف ایک زینب کا کیس درست سمت میں تحقیقات سے حل ہوگیا تو آیندہ کسی بدمعاش مافیا کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیسوں کی خاطر درندوں والا سلوک کرے۔ اس لیے ڈارک ویب سے نمٹنے کے لیے برائٹ سوسائٹی کا کردار ادا کیجیے اور صرف برائٹ سوسائٹی ہی اس مافیا سے نمٹ سکتی ہے ورنہ اربا ب اختیار سے وابستہ اس دھندے کے حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔
ٹیگزجمیل فاورقی ڈارک ویب زینب قتل
No comments:
Post a Comment