جنرل ضیاء بے مثل سفارت کار ۔۔۔۔۔ !
جنرل ضیاء کو پاکستان کی تاریخ کا بہترین سفارت کار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اسکی سفارتی صلاحیتوں کے حوالے سے چند دلچسپ واقعات پیش خدمت ہیں!
" جنرل ضیاء امریکہ کے دورے پر تھے جہاں انہوں نے پورے ملت اسلامیہ کے نمائندے کے طور پر اقوام متحدہ سے خطاب کرنا تھا ۔ امریکہ میں دو ماہ بعد الیکشن ہونے والے تھے ۔ جنرل ضیاءالحق اور امریکی صدر جمی کارٹر کی ملاقات ہوئی جس میں جمی کارٹر نے شکائتاً کہا کہ ۔۔۔
" جناب صدر آپ نے ہماری 400 ملین ڈالر کی امداد سرسری انداز میں اور فی الفور مسترد کردی " ۔۔ جواباً جنرل ضیاء نے کہا کہ " جناب صدر ان معاملات پر بات اب 4 نومبر کے بعد ہی مناسب ہوگی "۔۔۔
آغا شاہی کے بقول صدر ضیاء کا یہ جملہ سن کر ہمارے پاؤں تلے زمین نکل گئی ۔ اور جمی کارٹر کے چہرے پر خجالت نظر آنے لگی ۔ پاکستان کا غیر منتخب صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے منتخب صدر سے کہہ رہا تھا کہ " تم الیکشن جیت کر آؤ پھر بات کرنا۔ " ۔۔
جنرل کے اس جملے پر سفارتی حلقوں میں زبردست تبصرے ہوئے اور لوگوں نے کہا کہ " جنرل امریکہ کے مقابلے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہیں۔۔۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
82ء میں جنرل ضیاء ایک کانفرنس میں شرکت کرنے انڈیا پہنچے ۔ اس کانفرس میں دنیا کے 80 ممالک کے سربراہان شریک تھے ۔ صدارت اندرا گاندھی کر رہی تھیں ۔ جنرل ضیاء نے اندرا گاندھی کی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر اپنی تقریر میں کہا کہ " مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کے مطابق حل کرنا چاہئے ۔" ۔۔ جنرل کی یہ بات سن کر اندرا گاندھی اپنی صدارت کی نشست سے اٹھ کر چلی گئیں اور اپنی جگہ یاسر عرفات کو بیٹھا دیا۔
دوسرے دن پورے انڈین پریس کی 8 کالمی سرخی تھی کہ " صدر ضیاء نے کانفرنس میں مسئلہ کشمیر اٹھا دیا " ۔۔ کچھ نے لکھا کہ " دھماکہ کر دیا " کسی نے لکھا " بہت زیادتی کی " ۔۔ تین دن تک انڈین اخبارات ضیاء کے خلاف اور کشمیر کے حوالے سے سرخیوں اور اداریوں سے بھرے رہے ۔
تیسرے روز کانفرنس کے تشہیر کے شعبہ کے انچارج ایڈیشنل سیکٹری خارجہ مانی شنکر آئر نے بھارتی اخبارات کے اڈیٹروں کو بلایا اور کہا کہ " پلیز آپ لوگ جنرل ضیاء کا تذکرہ کرنا بند کر دیں ۔ آپ سارے جنرل صاحب کی مرضی کے مطابق ردعمل دے رہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں اور دنیا کے 80 ممالک کے سربراہان کے سامنے مسئلہ کشمیر اور پاکستانی موقف کی تشہیر ہو رہی ہے ۔ آپکی اس تشہیر کے نتیجے میں انڈیا اور کانفرنس کی سربراہ اندرا گاندھی کہیں پیچھے رہ گئیں ہیں۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
80ء میں زمباوے کے جشن آزادی کے موقع جنرل ضیاء اور انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی سمیت دنیا کے کئی ممالک کے سربراہ جشن میں شرکت کرنے زمباوے پہنچے ۔
اندراگاندھی اور جنرل ضیاء ایک ہی ہوٹل میں ٹہرائے گئے ۔ اندرگاندھی 13ویں فلور پر تھیں جبکہ جنرل ضیاء 11ویں فلور پر تھے ۔ جنرل ضیاء نے فوری طور پر اندرا گاندھی کو فون کر دیا اور باہمی تعلقات معمول پرلانے کے لیے بات چیت کی خواہش ظاہر کی ۔ اندرا گاندھی کے لیے انکار ممکن نہیں تھا ورنہ کئی ممالک کے سربراہوں کی موجودگی میں انڈیا پر الزام لگتا کہ وہ کشیدگی برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔
اندراگاندھی اپنے فلور پر ملاقات کا انتظام کرنے لگیں تو جنرل ضیاء نے دوبارہ فون کیا اور کہا کہ " مادام آپ نیچے آنا پسند کرینگی یا میں آؤں ؟ " ۔۔
تب اندراگاندھی نے بادل نخواستہ نیچے آنے کی حامی بھری اور کہا کہ " اپ صدر ہیں اور پروٹوکول کےلحاظ سے آپکا کا درجہ بڑا ہے اسلئے میں نیچے آجاتی ہوں " ۔۔
بظاہر اس چھوٹی سی سفارتی مات پر ایک انڈین صحافی نے لکھا کہ ۔۔ " مجیب ، یحیی خان اور بھٹو کو اپنی انگلیوں پر نچانے والی اندرا گاندھی کا پالا ضیاء جیسے زیرک ، چالاک اور شاطر شخص سے پڑا ہے ۔ ضیاء کی مثال شارک کا شکار کرنے والے شکاری کی سی ہے ۔ جو شارک کی تمام تر طاقت اور مستی کے باوجود نہایت تحمل اور برباری سے بالاآخر اسکا شکار کر لیتا ہے ۔"۔۔
تحریر شاہدخان