بائیکاٹ — شعور سے کریں، شور سے نہیں
مختلف برانڈز جیسے کہ Pepsi اور KFC وغیرہ کس طرح دوسرے ممالک میں کام کرتے ہیں؟ ان میں کس کا پیسہ لگا ہوتا ہے؟ اور بائیکاٹ سے کس کو نقصان ہوتا ہے؟ اس تحریر میں ان تمام موضوعات پر بات کی جائے گی۔

مثلاً: ایک پاکستانی کاروباری شخص یا کمپنی، بیرونِ ملک برانڈ سے فرنچائز خریدتی ہے۔
وہ برانڈ کو ایک مرتبہ فرنچائز فیس دیتا ہے اور پھر ہر مہینے یا سالانہ رائلٹی (عام طور پر سیلز کا چند فیصد) دیتا ہے۔
برانڈ کا نام، معیار، مینیو یا طریقہ کار اصل کمپنی کا ہوتا ہے، مگر سرمایہ کاری، عملہ، اور روزمرہ کا کاروبار مقامی افراد کا ہوتا ہے۔
یعنی اگر آپ پاکستان میں کسی برانڈ پر حملہ کرتے ہیں، تو ڈائریکٹ نقصان پاکستانیوں کو ہو گا — وہ لوگ جنہوں نے اپنا پیسہ لگایا، نوکریاں دی ہیں اور روزی کما رہے ہیں۔

اگرچہ کچھ عالمی برانڈز اسرائیل کی بالواسطہ حمایت کرتے ہیں، مگر پاکستان میں ان کا معاشی فائدہ بہت محدود ہوتا ہے۔
ان کو ملنے والی فیس اور رائلٹی کی رقم نہایت قلیل ہے، جو اسرائیل کی جنگی مشینری کو تقویت دینے کے لیے ناکافی ہے۔
لہٰذا ایسے بائیکاٹ سے اسرائیل کو براہِ راست معاشی نقصان نہیں پہنچتا۔
ایک اہم بات ہے کہ یہ درست ہے کہ بہت سی بین الاقوامی (multinational) کمپنیاں اسرائیل کو مالی امداد دیتی ہیں لیکن پاکستان میں ان کی موجودگی سے ہم بھی ان سے سیکھ کر اپنے برانڈز بناتے ہیں ۔ جیسے نیسلے ملک پیک سے سیکھ کر پاکستان کی Engro Foods نے Olper's Milk کو پاکستان میں بنا کر متعارف کیا ۔ اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اچھے معیاری برانڈز اور پروڈکٹس بنا کر مارکیٹ میں لے کر آئیں ۔
کوکا کولا اور پیپسی کو چھوڑ کر ہم گورمے کولا پینا شروع کر دیں ، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ کولا مشروب چاہے وہ باہر کی کمپنی کے ہوں یا پاکستانی ، صحت کیلئے نہایت نقصان دہ ہیں ۔
پاکستان میں جگہ جگہ پیزا اور برگر کے چھوٹے ریسٹورنٹ کھلے ہوئے ہیں لیکن ان میں جو چکن یا بیف استعمال ہوتا ہے اس کے بارے میں کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا ۔ اس سب کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا ۔ کیونکہ ہر چیز میں تو پاکستانی دو نمبری کرتے ہیں ۔
سارے یورپ اور امریکہ کی کمپنیاں کا بائیکاٹ کرنا ایک بڑی بے وقوفی ہوگی ۔ کے ایف سی اور کوکا کولا کے علاوہ بہت سا میڈیکل کا سامان باہر سے آتا ہے ۔ کیونکہ مغرب سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق کے میدان میں ہم سے بہت آگے ہے ۔ اسلئے ہمیں صرف جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے بھی کام لینا ہو گا ۔
اب آگے چلتے ہیں ۔ ۔ ۔

بائیکاٹ کے دو طریقے ہو سکتے ہیں:
پہلا طریقہ:
ریاستی سطح پر یہ فیصلہ کیا جائے کہ پاکستان میں ایسے برانڈز اور ان کی فرنچائزز کو بند کیا جائے اور جو پاکستانی ان میں کام کرتے ہیں یا جنہوں نے ان میں اپنا پیسہ لگایا ہے وہ اس کے متبادل بزنس شروع کریں اور "اسی کوالٹی" (quality) کی چیزیں فراہم کریں۔ اچھا معیار ہو تو گاہک وہیں پر آئے گا ۔ لیکن جس طرح پاکستان کی معاشی صورتحال ہے اور کاروبار شروع کرنے میں بہت سی رکاوٹیں ہوتی ہیں ، کیا یہ ہر کسی کے بس کی بات ہے ؟
دوسرا طریقہ:
اگر ریاست یہ قدم نہیں اٹھاتی تو ہر شخص انفرادی سطح پر خود یہ فیصلہ کرے کہ میں آئندہ ان برانڈز کو استعمال نہیں کروں گا۔
ان دونوں طریقوں سے ہٹ کر ان برانڈز اور فرنچائزز پر جا کر توڑ پھوڑ کرنا اور آگ لگانا صرف فساد ہے، اس کو بائیکاٹ نہیں کہنا چاہیے۔
اگر آپ بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں تو خود کریں، زندگی بھر کے لیے KFC نہ جائیں، Pepsi کا ایک گھونٹ نہ پئیں۔
لیکن اگر کسی اور کو پیپسی پیتا دیکھ کر آپ اس کے ہاتھ سے بوتل چھین کر دیوار پر دے مارتے ہیں، تو آپ اور اسرائیل میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟
بھائی، اپنے کام سے کام رکھیں۔ خود بائیکاٹ کریں، دوسروں سے کیوں زبردستی کروا رہے ہیں؟
انفرادی طور پر جب لوگ جبر پر اترتے ہیں تو فساد پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ اتحاد کے بجائے گروہ بندی کا شکار ہوتا ہے۔
آپ اگر چاہتے ہیں کہ پورا ملک ان چیزوں کو چھوڑ دے تو پھر اپنی ریاست کو قائل کریں۔
اور اگر ریاست نہیں مانتی، تو اصولی طور پر جو لوگ اپنے گھر کی ریاست سے ایک بات نہیں منوا سکتے، انہیں اسرائیل کے سامنے بھڑکیں نہیں مارنی چاہییں۔
جو اپنے گھر میں اپنی خود کی ریاست سے ایک برانڈ بند نہیں کروا سکتے، وہ اسرائیل اور امریکہ سے جنگ کیا بند کروائیں گے؟
ریاست کو اگر آپ قائل نہیں کر سکتے تو اپنی ذات کی حد تک بائیکاٹ کریں اور ان برانڈز کا استعمال چھوڑ دیں،
لیکن قومی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں، نہ وہاں کام کرنے والے مسلمانوں اور پاکستانیوں کی روزی روٹی ان سے چھینیں۔
جب آپ ان برانڈز کا استعمال چھوڑ دیں گے تو آپ کو آگ لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ برانڈز خود اپنے نقصان کو دیکھ کر میدان چھوڑ جاتے ہیں۔

یہ برانڈز کا بائیکاٹ کرنا، اسرائیل کی مذمت میں پوسٹیں کرنا یا پلے اسٹور پر جا کر فیس بک اور دیگر ایپلیکیشنز کو نیگیٹو ریٹنگ دینا۔ یہ سب فضول کام ہیں جن پر ہم اپنا وقت اور انرجی ضائع کر رہے ہیں۔
اور ان کاموں کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ہم یہ سب کر کے خود تو تسلی دے لیتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے،
جبکہ حقیقت میں یہ جھوٹی تسلی ہوتی ہے اور جھوٹا اطمینان ہوتا ہے جو ہمیں اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کرنے دیتا، اور ہم انہی فضول کاموں پر اکتفا کر لیتے ہیں۔
جو وقت اور انرجی ہم یہاں ضائع کر رہے ہیں، اس کو ہم بہتر کاموں میں صرف کر سکتے ہیں جن کا اثر ڈائریکٹلی اسرائیل تک پہنچے۔
اس میں سب سے پہلا قدم خود پر غور کرنا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے ہم میں ایسی کیا خامی ہے کہ دنیا بھر میں اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ہم ہر جگہ سے مار کھا رہے ہیں؟
بائیکاٹ والی پروڈکٹس کی لسٹ بنانے کے بجائے اپنی خامیوں کی لسٹیں بنا کر وائرل کریں، تاکہ مسلمان اپنی ان خامیوں کو دور کرنے کا سوچ سکیں۔
دوسرا قدم اپنی ریاستوں پر حکمت کے ساتھ دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے، اس کا حل نکالے،
اور تعلیم، تحقیق، صحافت اور سفارت کاری کے ذریعے عالمی رائے عامہ ہموار کرے۔
تیسرا قدم اپنے اندر چھپے ہوئے بھیڑیوں کو تلاش کرنا ہے، جو وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے نام پر کروڑوں، اربوں روپے کی امداد اپنی جیب میں ڈال چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ مسئلہ کبھی حل ہو سکے، کیونکہ اس مسئلے کا حل ان کے کاروباروں پر تالا لگا دے گا۔
یاد رہے: مسئلہ فلسطین کا حل، بہت سے لوگوں کے لیے خود ایک مسئلہ ہے۔

No comments:
Post a Comment