Tuesday, 5 January 2016

Takleef aur nateeja - Urdu article by Abu Yahya



FROM FACEBOOK PAGE: https://www.facebook.com/abuyahya.inzaar/timeline

تکلیف اور نتیجہ

سوال کرنے والے کا سوال ختم ہوا، مگر اہل مجلس کو سوگوار چھوڑ گیا۔سائل کی داستان دردناک بھی تھی اور اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں نے اس کے درد کو ہر سننے والے کے دل میں اتاردیاتھا۔ یہ شخص عارف کی مجلس میں پہلی بار آیا تھا ۔ اس کا سوال اپنی زندگی کے ان دکھوں اور محرومیوں سے عبارت تھا جس نے اس کی زندگی کو تلخیوں سے بھردیا تھا۔اس پر مزید یہ کہ قریبی رشتہ داروں کی طرف سے کی جانے والی بد سلوکی نے معاملات کواور تکلیف دہ کردیا تھا۔

عارف حسب عادت سرجھکائے خاموش بیٹھے تھے۔ کچھ دیر خاموشی میں گزرگئی تو ایک پرانے رفیق نے ان صاحب کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔

آپ صبر سے کام لیجیے۔ انشاء اللہ ساری مشکلیں ختم ہوجائیں گی۔
کب ختم ہوں گی یہ مشکلات؟ سائل نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔

یہاں تو ایک مشکل آتی ہے اور ابھی جاتی بھی نہیں ہے کہ دوسری آجاتی ہے۔ لگتا ہے کہ مشکلات ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ایک کرکے نکلتی چلی آتی ہیں۔

اب یہ رفیق خاموش ہوگئے اور جواب دینے کے بجائے عارف کو دیکھنے لگے۔ باقی اہل مجلس کی نگاہیں بھی عارف کی طرف اٹھ گئیں۔ کچھ ہی دیر میں ان کی آواز بلند ہوئی۔

مشکلات کبھی ختم نہیں ہوتیں۔کم یا زیادہ ، چھوٹی یا بڑی، پے درپے یا آہستہ آہستہ؛ یہ مشکلات ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ خدا کی اس اسکیم کا حصہ ہیں جن کے تحت یہ دنیا بنی ہے۔ اس لیے ان کو تو ختم نہیں ہونا۔

مگر میرا قصور کیا ہے؟مجھ پر اتنی زیادہ مشکلات کیوں ہیں؟

آپ کا کوئی قصور نہیں۔ مشکلات کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ اللہ کو زیادہ محبو ب ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذات سے زیادہ قریب رکھنا چاہتے ہیں۔اس لیے مشکلات کے اس امتحان کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔البتہ ایک غلطی ہے جو آپ کررہے ہیں۔اس کی اصلاح کرلیجیے۔

عارف کی بات سے سائل کی آنکھوں میں خوشی کی چمک نمودار ہوئی تھی۔اس نے فوراً کہا۔ مجھے بتائیے کہ میں کیا غلطی کررہا ہوں۔

دیکھیے! انسان کا واسطہ کسی محرومی سے پڑے یا لوگوں کی طرف سے کسی قسم کے تکلیف دہ رویہ کا سامنا ہو، ان سے جو تکلیف محسوس ہوتی ہے وہ ہمارے دماغ میں ہوتی ہے، ہماری نفسیات میں ہوتی ہے۔اگر ہم اپنے دماغ اور نفسایت کو کنٹرول کرنا سیکھ لیں تو خارج کی کوئی مشکل دور ہو یا نہ ہو کم از کم اس اذیت سے ہم خود کو بچاسکتے ہیں جو خود ہم اپنے آپ کو دے رہے ہوتے ہیں۔

سائل کی آنکھوں سے ابھی بھی سوال جھلک رہا تھا۔ عارف بولتے رہے۔

کسی نوجوان لڑکی کو جس کی ابھی ابھی شادی ہوئی ہو، کوئی تکلیف دہ مرض ہوجائے تو وہ کیسی اذیت میں آجائے گی۔اس کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ شادی کے بعد بچیاں حاملہ ہوتی ہیں۔ وہ نو مہینے تک حمل کی تمام سختیاں اور ولادت کا اذیت ناک مرحلہ جھیلتی ہیں۔ مگر کیا وہ نفسیاتی طور پر پژمردہ اور پریشان ہوتی ہیں۔ہرگز نہیں۔ بلکہ کسی بچی کو شادی کے کچھ عرصے بعد تک حمل نہ ٹھہرے تو وہ پریشان ہوجاتی ہے اور ہزار علاج کرکے اس مرحلے تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔آخر کیوں؟

ظاہر ہے کہ بچوں کی خوشی کو حاصل کرنے کے لیے؟سائل نے فوراً جواب دیا۔

ہاں اس کی نظر نتیجے پر ہوتی ہے۔تو پھر آپ بھی نظر نتیجے پر رکھیں۔ یہ مشکلات اور مسائل وہ حمل ہے جس سے جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں کا نتیجہ نکلے گا۔ جب آپ اس رخ سے معاملے کو دیکھنے لگیں گے تو پھر آپ کوبھی یہ تکلیفیں بری نہیں لگیں گی۔آپ کا زاویہ نظر بدلے گا اور پھر ہر تکلیف آپ کے ذہن کو اذیت دینے کے بجائے خوشی دینے کا سبب بن جائے گی۔
عارف کی بات ختم ہوئی اور سائل کے چہرے پر اطمینان کی لہر چھائی۔

No comments:

Post a Comment