Friday 28 February 2020

💕 ماں کی خدمت کا صلہ 💕



 ⚘ 💕 ماں کی خدمت کا صلہ  💕


ﺣﻀﺮﺕِ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ .⚘

ﺣﻀﺮﺕِ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﻰ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺮﺕ ﺑﮩﺖ ﺗﮭﻰ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭؐ ﮐﺎ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ،💕

ﺑﻮﮌﮬﻰ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻰ ﺧﺪﻣﺖ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺣﻀﻮﺭؐ ﮐﮯ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﻰ،ﺍﺩﮬﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ؐﯾﻤﻦ ﮐﻰ ﻃﺮﻑ ﺭُﺥ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ۔۔۔۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻤﻦ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﻰ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺍٓ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﺍٓﭖؐ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﺑﮭﻰ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﺋﮯ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ؐﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﻰ ﺑﻮﮌﮬﻰ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﻣﺎﮞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺍﻭﯾﺲ ﺑﮩﺖ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺗﻨﮩﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓ ﺳﮑﺘﺎ۔

ﺍٓﭖ ؐ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮؓ ﺍﻭﺭﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽؓ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻭﺭﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍٓﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﯾﺲ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﻗﺪ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﮧ، ﺭﻧﮓ ﮨﻮ ﮔﺎ ﮐﺎﻻ، ﺍﻭﺭ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﺍﻍ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍٓﺋﮯ ﺗﻮﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺍﻧﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻭﯾﺲ ﻧﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺭﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺣﺞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﮐﻮ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﯾﺲ ﻧﮧ ﻣﻠﺘﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺣﺎﺟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻋﺮﻓﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺎﺟﯽ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺐ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﻭ ﺻﺮﻑ ﯾﻤﻦ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﻮ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﯾﻤﻦ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﻤﻦ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﻭ ﺻﺮﻑ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﻣﺮﺍﺩ ﮐﮭﮍﺍ ﺭﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﻣﺮﺍﺩ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﺐ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﻭ ﺻﺮﻑ ﻗﺮﻥ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﻮ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺍٓﺩﻣﯽ ﺑﭽﺎ ﺍﻭﺭﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻗﺮﻧﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﻧﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﻭﯾﺲ ﮐﻮﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﺎﮞ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﮕﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﮯ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻭﯾﺲ ﮨﮯ ﮐﺪﮬﺮ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﺮﻓﺎﺕ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﻧﮯ، ﺍٓ ﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ؓ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭﻋﺮﻓﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻭﮌ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺟﺐ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻧﻤﺎﺯﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﭼﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍٓﮐﺮﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔

ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﺮﺍ ﺗﻮﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﻮﻥ ﮨﻮ ﺑﮭﺎﺋﯽ؟ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ، ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮؓ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﮨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﮐﻮﻥ ﮨﯿﮟ؟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ؓ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﻋﻤﺮﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﻣﯿﮟ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﮨﻮﮞ۔⚘

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﮐﺎﯾﮧ ﺳﻨﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍٓﭖ ﮐﻮﭘﮩﭽﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺣﺞ ﭘﺮ ﺍٓﯾﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ؓ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﻭﯾﺲ ﮨﻮ؟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﻭﯾﺲ ﮨﻮﮞ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮؓ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎﮐﺮ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﮞ؟ ﺍٓﭖ ﻟﻮﮒ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﮞ؟ ﺗﻮﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﺎﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ؐ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻭﯾﺲ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍٓﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ۔

ﺍٓﭖ ؐ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻗﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﯾﺲ ﮐﻮ ﺭﻭﮎ ﻟﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ؓ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺧﺪﺍ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ٰ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺟﺐ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﻨﻤﯽ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮞ ﮔﮯﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺧﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺍﻭﯾﺲ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﮑﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ’’ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ‘‘ ﺗﻮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺟﺪﮬﺮﺟﺪﮬﺮﺗﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﻃﻔﯿﻞ ﺍﻥ ﮐﻮﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﺎﻭﮞ ﮔﺎ۔

⚘⚘⚘⚘⚘⚘⚘⚘

اللہ تعالی اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام سے اس حد تک محبت فرماتا ہے کہ جس کی نظیر نہيں ملتی اور ان کو عزیز رکھتا ہے کہ جو اس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور ان کا درجہ و مرتبہ تو اس کی بارگاہ اقدس میں بہت بلند ہے جو حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں ایسے ہی عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے بعد سرفہرست نام حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔⚘

حاکم نے حضرت ابن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ:⚘

“تابعین میں میرا بہترین دوست اویس قرنی (رضی اللہ تعالی عنہ) ہے۔”

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس قدر مستور الحال تھے کہ لوگ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ سادگی اور فقر کا اعلی نمونہ تھے۔💗

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالے عنہ فرماتے ہيں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ:

“بہت سے لوگ (ایسے) ہیں جو بے حد پریشان غبار آلود ہيں اور جن کو دروازے سے دھکے دے کر نکالا جاتا ہے اگر وہ (کسی بات پر) اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالی ان کی قسم کو سچا اور پورا کر دے۔”

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و مرتبہ کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ خود حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زبان اطہر سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہے بیان فرمایا۔ مسلم شریف کی حدیث پاک ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:⚘

“اہل یمن سے ایک شخص تمہارے پاس آئے گا جسے اویس (رضی اللہ تعالی عنہ) کہا جاتا ہے اور یمن میں اس کی والدہ کے علاوہ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں اور والدہ کی خدمت اسے یہاں آنے سے روکے ہوۓ ہے اسے برص کی بیماری ہے جس کے لیے اس نے اللہ تعالی سے دعا کی۔ اللہ تعالی نے اسے دور کر دیا صرف ایک دینار یا درہم کی مقدار باقی ہے جس شخص کو تم میں سے وہ ملے تو اس سے کہے کہ وہ تم سب کی مغفرت کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرے اور مغفرت چاہے۔”

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا مرتبہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اللہ تعالی سے بخشش کی دعا فرمائی تو اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک کثیر تعداد کو بخش دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ انتہائی متقی اور پرہیز گار تھے۔ تقوی کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ تین روز تک کچھ بھی نہ کھایا پیا راستے میں چلے جا رہے تھے کہ زمین پر ایک ٹکڑا پڑا ہوا دکھائی دیا کھانے کے لیے اسے اٹھایا اور چاہتے تھے کہ کھائيں لیکن معاَ دل میں خیال آیا کہ کہيں حرام نہ ہو چنانچہ اسی وقت پھینک دیا اور اپنی راہ لی۔🍔

اللہ کے مقبول بندے وہی ہوتے ہيں جو اللہ تعالے کے دوست ہوتے ہيں۔ اللہ تعالے ان کو دوست رکھتا ہے جو اس کے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ اس شرط پر پورے اترتے ہيں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:⚘

“اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہ نبی ہيں نہ شہید پھر بھی انبیاء اور شہداء قیامت کے دن ان کے مرتبہ پر رشک کریں گے جو انہيں اللہ تعالی کے یہاں ملے گا لوگوں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ کون لوگ ہوں گے؟ حضور علیہ الصلوۃ ولسلام نے فرمایا: کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپس میں ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے اور نہ آپس میں مالی لین دین کرتے تھے بلکہ صرف اللہ کے دین کی بنیاد پر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے بخدا ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہو گا انہیں کوئی خوف نہ ہو گا اس وقت جب کہ لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے اور نہ کوئی غم ہو گا اس وقت جب کہ لوگ غم میں مبتلا ہوں گے۔” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے یہ آیت مبارک پڑھی:

الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون ۔🕋

عشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا وہ مطہر و منزہ جذبہ جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے قلب اطہر میں موجزن تھا تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی اپ محبت و عشق کے جس عظیم مقام و مرتبہ پر فائز تھے اسے دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے بھی رشک کیا۔ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے باطنی فیضان سے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا سینہ پاک منور و تاباں تھا اس باطنی فیضان کے نور سے آپ نے حقیقت محمدی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو پا لیا تھا وہ اسرار الہی جسے ہر کوئی نہیں پا سکتا اسے آپ نے مدینہ طیبہ سے دور یمن میں بیٹھ کر پا لیا اور پھر مخلوق خدا سے کنارہ کشی اس لیے اختیار کر لی کہ لوگوں پر آپ کا مقام و مرتبہ ظاہر نہ ہو جائے-💖

حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی آپ پر خصوصی نگاہ کرم تھی آپ کا شمار سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کے دوستوں میں ہوتا ہے آپ کے حالات کی کیفیت سے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کو آگاہی حاصل تھی۔ رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق و محبت کی تڑپ و لگن جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں موجود تھی اس کا علم سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو بخوبی تھا۔ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ نے محبت سے عشق تک کی تمام منازل کو طے کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سرخیل ہيں اور اس راہ پر چلنے والوں کے ایک عظیم قائد و رہنما ہيں۔💕

جس دیوانگی اور وارفتگی کے جذبے کے ساتھ آپ نے رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کیا وہ جذبہ عشق کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا ہوا تھا جس نے آپ کے اور حضور سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کے مابین ایک مضبوط باطنی و روحانی تعلق قائم کر دیا۔ یہ پروردگار عالم کا آپ پر خصوصی فضل و کرم تھا کہ اس نے اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت و عشق کی دولت سے آپ کے قلب پاک کو مالا مال کر دیا تھا۔💕

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا سینہ عشق کاملہ کا فیض حاصل کرنے والوں نے بہت فائدہ اٹھایا اور اپنی زندگیوں کو ایک نئی جہت دی آپ کے قلب منور میں حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق و محبت کا جو الاؤ روشن تھا اس کی روشنی تاریک دلوں کو منور کرنے کے لیے ہدایت و رہنمائی کا ایک عظیم مینارہ نور تھی۔ آپ مستجاب الدعوات اور بارگاہ الہی کے مقبول و برگزیدہ بندے تھے، مستحور الحال اور اپنے حال میں مست و مگن رہنے والے حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے ولئی خاص، خیر التابعین حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شخصیت عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے آپ کی سیرت طیبہ محبت و عشق کا دعوی کرنے والوں کے لیے ایک عظیم درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے آپ کے نصائح و اقوال متلاَشیان حق کے لیے منبع ہدایت ہیں۔📋
⚘⚘⚘⚘⚘⚘⚘⚘

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں آپکے فضائل میں ایک باب قائم کیا ہے، اور اس کے تحت امام مسلم کی روایت کردہ احادیث میں سے ایک حدیث: )2542( بھی ذکر کی:📋
"اسیر بن جابر کہتے ہیں: " جب بھی یمن کے حلیف قبائل عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو عمر ان سے دریافت کرتے: "کیا تم میں اویس بن عامر ہے؟"
ایک دن اویس بن عامر کو پا ہی لیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:
"تم اویس بن عامر ہو؟" انہوں نے کہا: "ہاں"پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:
"قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوں؟" انہوں نے کہا:"ہاں"پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:
"تمہیں برص کی بیماری لاحق تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر جگہ باقی ہے؟" انہوں نے کہا: "ہاں"پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:
"تمہاری والدہ ہے؟" انہوں نے کہا: "ہاں"پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث نبوی سنائی: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

)تمہارے پاس یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر باقی ہے، وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر قسم بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو لازمی کروانا( لہذا اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر یں، تو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کیلئے مغفرت کی دعا فرمائی۔

No comments:

Post a Comment