Wednesday 24 August 2016

احوالِ بَرزَخ - Ordeals in grave


احوالِ بَرزَخ : قبر میں کیا ہو گا؟

(مصنف: صوفی خادم حسین) - ایک اقتباس
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہم رُسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ میں قبرستان گئے- جب قبر تک پہنچے تو دیکھا کہ ابھی لحد نہیں بنائی گئی ہے- اس وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے- اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس (باادب) اس طرح بیٹھ گئے کہ جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں ایک لکڑی تھی- جس سے زمین کرید رہے تھے (جیسے کوئی غمگین کیا کرتا ہے)- پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک اُٹھا کر فرمایا- کہ قبر کے عذاب سے پناہ مانگو- دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا- پھر فرمایا کہ بلاشبہ جب مومن دُنیا سے آخرت کو جانے لگتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے فرشتے آتے ہیں- جن کے سفید چہرے سورج کی طرح روشن ہوتے ہیں- ان کے ساتھ جنتی کفن ہوتا ہے- اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے- یہ فرشتے اس قدر ہوتے ہیں کہ جہاں تک اس کی نظر پہونچے وہاں تک بیٹھ جاتے ہیں- پھر (حضرت) ملک الموت علیہ السلام تشریف لاتے ہیں- حتٰی کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں- اور فرماتے ہیں- کہ اے پاکیزہ روح اللہ کی مغفرت اور اس کی رضامندی کی طرف نکل کر چل- چنانچہ اس کی روح اس طرح سہولت سے نکل آتی ہے جیسے مشکیزہ میں سے (پانی) کا قطرہ بہتا ہوا باہر آجاتا ہے- پس اسے (حضرت) ملک الموت علیہ السلام لے لیتے ہیں- ان کے ہاتھ میں لیتے ہی دوسرے فرشتے پل بھر بھی ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے حتٰی کہ اسے لے کر اسی کفن اور خوشبو میں رکھ کر آسمان کی طرف چل دیتے ہیں- اس خوشبو کے متعلق ارشاد فرمایا کہ زمین پر جو کبھی عمدہ سے عمدہ خوشبو مشک کی پائی گئی ہے- اس جیسی وہ خوشبو ہوتی ہے- پھر فرمایا کہ اس روح کو لے کر فرشتے (اوپر) چڑھتے ہیں - اور (زمین پر رہنے والے) فرشتوں کی جس جماعت پر گذر ہوتا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ یہ پاک روح کون ہے- وہ اس کا اچھے سے اچھا نام لے کر جواب دیتے ہیں- جس سے دنیا میں بلایا جاتا تھا- کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے- پھر آسمان دنیا تک اس کو پہونچاتے ہیں- اور اس کیلئے دروازہ کھلواتے ہیں اور دروازہ کھول دیا جاتا ہے- اور ہر آسمان کے مقرب فرشتے اپنےقریب والے آسمان تک اس کے ساتھ جاتے ہیں- یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک اس کو پہنچایا جاتا ہے- حق تعالٰے فرماتا ہے میرے بندہ کا اعمال نامہ علیین میں لکھو اور اس کو (سوال و جواب کیلئے) زمین پر واپس لے جائو- کیونکہ میں نے انسان کو زمین ہی سے پیدا کیا ہے اور اسی میں ان کو لوٹا دوں گا- اور اسی سے ان کو دوبارہ نکالوں گا- چنانچہ اس کی روح اس کے بدن میں لوٹائی جاتی ہے (مگر) اس طرح نہیں جیسے دُنیا میں تھی- بلکہ اس عالم کے مناسب جس کی حقیقت دیکھنے سے معلوم ہو گی)- پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں- جو آکر اسے بٹھاتے ہیں- اور اس سے سوال کرتے ہیں- کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے - میرا رب اللہ ہے- پھر اس سے پوچھتے ہیں- کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے- میرا دین اسلام ہے- پھر اس سے پوچھتے ہیں- کہ یہ کون صاحب ہیں؟ جو تمہارے اندر بھیجے گئے وہ کہتا ہے وہ اللہ کے پیغمبر ہیں- پھر اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تیرا عمل کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی- سو اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی- اس کے بعد ایک پُکارنے والا (اللہ تعالٰی کی طرف سے) آسمان سے پکارتا ہے - کہ میرے بندے نے صحیح صحیح جواب دیا- اس کےلئے جنت کے بچھونے بچھا دو- اور اس کو جنت کی پوشاک پہنا دو- اور اس کے لئے جنت کی طرف دروازہ کھول دو، چنانچہ جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے- جس کے ذریعے جنت کی ہوا اور خوشبو آتی رہتی پے- اور اس کی قبر اتنی کشادہ کر دی جاتی ہے کہ جہاں تک اس کی نظر پہونچے- اس کے بعد نہایت خوبصورت چہرے والا، بہترین لباس والا (اور) پاکیزہ خوشبو والا ایک شخص اس کے پاس آکر کہتا ہے- کہ خوشی کی چیزوں کی بشارت سن لے- یہ تیرا وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا- وہ کہتا ہے تم کون ہو؟ تمہارا چہرہ حقیقت میں چہرہ کہنے کے لائق ہے- اور اس لائق ہے کہ اچھی خبر لائے- وہ کہتا ہے کہ میں تیرا عملِ صالح ہوں- اس کے بعد وہ (خوشی میں) کہتا ہے کہ اے رب قیامت قائم فرما اے رب قیامت قائم فرما تاکہ میں اپنے اہل و عیال اور مال میں پہنچ جائوں- اور بلاشبہ جب کافر دُنیا سے جانے اور آخرت کا رخ کرنے کا ہوتا ہے تو سیاہ چہروں والے فرشتے آسمان سے اس کے پاس آتے ہیں- جن کے ساتھ ٹاٹ ہوتے ہیں- اور اس کے پاس اتنی دُور تک بیٹھ جاتے ہیں- جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے- پھر (حضرت) ملک الموت تشریف لاتے ہیں- حتٰی کے اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں- پھر کہتے ہیں کہ اے خبیث جان اللہ کی ناراضگی کی طرف نکل- ملک الموت کا یہ فرمان سن کر روح اس کے جسم میں اِدھر اُدھر بھاگی پھرتی ہے- لہٰذا ملک المکوت اس کی روح کو جسم سے اس طرح نکالتے ہیں جیسے بُوٹیاں بھوننے کی سیخ بھیگے ہوئے اُون سے صاف کی جاتی ہے (یعنی کافر کی رُوح کو جسم سے زبردستی اس طرح نکالتے ہیں جیسے بھیگا ہوا اون کانٹے دار سیخ پر لپٹا ہو ہو- (اور اس کو زور سے کھینچا جائے) پھر اس کی روح کو ملک الموت (اپنے ہاتھ میں) لے لیتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں لیتے ہی دوسرے فرشتے پلک جھپنے کی برابر بھی ان کے پاس نہیں چھوڑتے حتٰی کہ فورا ان سے لے کر اس کو ٹاٹوں میں لپیٹ دیتے ہیں (جو ان کے پاس ہوتے ہیں) اور ان ٹاٹوں میں سے ایسی بدبو آتی ہے جیسی کبھی کسی بدترین سڑی ہوئی مردہ نعش سے روئے زمین پر بدبو پھوٹی ہو- وہ فرشتے اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں- اور فرشتوں کی جس جماعت پر بھی پہنچتے ہیں- وہ کہتے ہیں- کہ یہ کون خبیث روح ہے؟ وہ اس کا برے سے برا نام لے کر کہتے ہیں- جس سے وہ دنیا میں بلایا جاتا تھا- کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے- حتٰی کہ وہ اسے لے کر پہلے آسمان تک پہنچتے ہیں- اور دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں- مگر اس کے لئے دروازہ نہیں کھولا جاتا ہے- جیسا کہ اللہ جل شانہء نے فرمایا ہے- سورہ اعراف رکوع ٥ - “اِن کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے- اور نہ وہ کبھی جنت میں داخل ہوں گے- جب تک اُونٹ سوئی کے ناکے میں نہ چلاجائے-“ پھر اللہ تعالٰی شانہء فرماتے ہیں کہ اس کو کتاب سجین میں لکھ دو- جو سب سے نیچی زمین میں ہے- چنانچہ اس کی روح (وہیں سے) پھینک دی جاتی ہے- پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی- سورہء الحج آیت ٣١): ء ٤)- “اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر پڑا- پھر پرندوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں- یا اس کو ہوا نے دور دراز جگہ میں لے جا کر پھینک دیا-“ پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے- اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں- اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں- کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں! پھر اس سے دریافت کرتے ہیں - کہ یہ شخص کون ہیں جو تمھارے اندر بھیجے گئے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں- جب یہ سوال و جواب ہو چکتے ہیں تو آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے- کہ اس نے جھوٹ کہا- اس کے نیچے آگ بچھا دو- اور اس کے لئے دوزخ کا دروازہ کھول دو- (چنانچہ دوزخ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے) اور دوزخ کی تپش اور سخت گرم لُو آتی رہتی ہے- اور قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے- حتٰی کہ اس کی پسلیاں بھچ کر آپس میں ادھر کی ادھر چلی جاتی ہیں- اور اس کے پاس ایک شخص آتا ہے - جو بدصورت اور بُرے کپڑے پہنے ہوئے ہوتا ہے- اس کے جسم سے بُری بدبو آتی ہے- وہ شخص اس سے کہتا ہے کہ مصیبت کی خبر سن لے - یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا- وہ کہتا ہے تُو کون ہے؟ واقعی تیری صورت اسی لائق ہے کہ تُو بری خبر سنائے- وہ کہتا ہے کہ میں تیرا بُرا عمل ہوں- یہ سن کر (وہ اس ڈر سے کہ میں قیامت میں یہاں سے زیادہ عذاب میں گرفتار ہوں گا) یوں کہتا ہے کہ اے رب قیامت قائم نہ کر- (حوالہ : مشکٰوہ) - مرتب : سید رُومان اِحسان

No comments:

Post a Comment