اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مرکھپ گیا اب کس کو جگاؤں۔
ملتا ہے کہاں خوشہٰ گندم کہ جلاؤں
شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا۔
ہر داڑھی میں تنکا ہے،ہر ایک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر۔
توحید کی تلوارسے خالی ہیں نیامیں
اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر۔
شاہیں کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے۔
ملتی ہوئی ملاّ سے مجاہد کی اذاں ہے،
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور۔
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے
بے باکی و حق گوئ سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن۔
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈرہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے۔
اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو!۔
اک بار تھا ہم چھٹ گئے اس بارگراں سے
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اُگتے ہیں تہ سایہٰ گل خار غضب کے۔
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے۔
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے۔
جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا۔
مرمرکے جئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہیں طاقوں پہ سجا کر۔
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیر امم سو گئی طاوٰس پہ آ کر۔
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان۔
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو!۔
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کامومن۔
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن ۔
No comments:
Post a Comment