نُورِ بصیرت - تحریر: رضا ءالدین صدیقی
داستانِ ایمان
خالد بن سعید بن العاص نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک ایسی آگ کے کنارے پر کھڑے ہوئے ہیں جس کی لمبائی چوڑائی خدا ہی بہتر جانتا ہے اور ان کا باپ انھیں اس آگ میں دھکیل رہا ہے جبکہ ھادی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انھیں کمرسے اس طرح تھامے ہوئے ہیں کہ وہ آگ میں نہ گرجائیں - وہ گھبرا کر اٹھے، کہنے لگے ، قسم بخدا یہ خواب بالکل سچا ہے - گھر سے نکلے تو حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی اور انھیں اپنا خواب سنایا - انھوں نے فرمایا کہ اللہ کی طرف سے تمھارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا گیا ہے - یہ اللہ کے رسول ہیں، تم ان کا اتباع کرو، اسلام میں داخل ہو جاو، اسلام ہی تمھیں آگ سے بچائے گا، جبکہ تمہارا باپ ضرور آگ میں جائے گا -
حضور علیہ الصلٰوہ والسلام اس وقت محلہ اجیاد میں تشریف فرما تھے - خالد آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ ارشاد ہوا، ایک اللہ پر ایمان کی جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں اور ان پتھروں کی عبادت چھوڑ دو، جو نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، نہ نفع و نقصان کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کون ان کی پُوجا کرتا ہے اور کون نہیں کرتا - خالد نے فوراََ کلمہ شہادت پڑھ لیا - ان کے اسلام لانے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑی مسرت ہوئی -
قبولِ اسلام کے بعد خالد رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے غائب ہو گئے لیکن ان کے باپ کو ان کے ایمان لانے کی خبر ہو گئی - اس نے ان کی تلاشی میں آدمی بھیجے، جو انھیں ڈھونڈ کر اس کے پاس لے آئے - باپ نے انھیں خوب سرزنش کی، اپنے کوڑے سے اس قدر پٹائی کی کہ وہ ان کے سر پر ٹُوٹ گیا - پھر کہنے لگا، تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے لگ گئے ہو - حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ اپنی قوم کی مخالفت کر رہے ہیں اور ہمارے خداوں اور آباو اجداد میں عیب نکال رہے ہیں - حضرت خالد نے کہا، اللہ کی قسم ! وہ سچ کہتے ہیں اور میں نے ان کی اتباع کرلی ہے - اس پر ان کے باپ کو بڑا غصہ آیا، ان کو بہت بُرا بھلا کہا، گالیاں دیں اور کہا، جہاں تیرا دل چاہے چلا جا، میں تیرا کھانا پینا بند کردوں گا، انھوں نے فرمایا اگر تم بند کردوگے تو اللہ تعالٰی مجھے اتنی روزی ضرور دے گا کہ جس سے میں گذارا کرلوں گا -
اس پر باپ نے انھیں گھر سے نکال دیا اور ان کے بھائیوں سے کہا کہ ان سے بول چال بند کردو، لیکن خوش بختی دیکھئے کہ حضور نے انھیں اپنے پاس رکھ لیا اور آپ ان کا ہر طرح سے خیال فرماتے - ان کا باپ سعید بن عاص بیمار ہوا تو قسم اٹھا کر کہنے لگا کہ اس بیماری سے شفا یاب ہو کر خانہ کعبہ میں عبادت نہیں ہونے دوں گا - اس پر خالد نے دعا مانگی ، اے اللہ اسے بیماری سے شفا ہی نہ دے - چنانچہ وہ اسی بیماری میں مر گیا - (حاکم، ابن سعد)
سبق - اسلام میں ہے کہ والدین کافر ہوں تب بھی ان کی خدمت کرو - لیکن کیونکہ خالد (رض) کا والد نہ صرف کافر تھا بلکہ اسلام دشمنی کے حوالے سے ناپاک عزائم رکھتا تھا اسلئے انھوں نے اس کی بیماری میں یہ دعا کی کہ اسے شفا نہ ہو
( تاکہ وہ صحتیاب ہونے کے بعد اپنے ناپاک عزائم کو تکمیل نہ دے سکے )
No comments:
Post a Comment