برہان وانی کون تھا ؟
اس نے اپنی سیلفیز اور موبائل ویڈیوز کو نوجوانوں سے رابطے کا ذریعہ بنایا اس کی ویڈیو کشمیر میں بھارتی تسلط کا مذاق اڑاتی تھیں، جو کشمیر پر اپنی سات لاکھ فوج مسلط رکھتے ہوئے بھی ایک چھوٹی سی عمر کے لڑکے کو سوشل میڈیا کے استعمال کرنے سے نہ روک سکی۔
جموں کشمیر کے ایک گاؤں شریف آباد میں ایک اسکول پرنسپل مظفر احمد وانی کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ اِس قدر اہم کیوں ہوگیا۔ پندرہ سال کی عمر میں گھر چھوڑ جانے والا یہ ہیرو 2010ء میں کشمیر میں ہونے والے فسادات کے بعد آخر کیوں اتنا اُبھر کر سامنے آیا کہ بھارت کی ساڑھے 7 لاکھ فوج مقبوضہ وادی میں یرغمال بن کر رہ گئی ہے؟ اور جس کی جدوجہد بھارتی فوجیوں کا دردِ سر بن گئی ہے؟
برہان نے ایک معتدل انسان کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔ اسی لیے وہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کشمیری ہندوؤں میں بھی مقبول تھا۔ اپنی ایک ویڈیو میں انہوں نے جنوبی کشمیر کے نوجوانوں کو اِس تنظیم میں شامل ہونے کی اپیل کی اور کہا کہ اب تک اِس تنظیم میں 30 کے قریب نوجوان شامل ہوچکے ہیں۔ برہان کی مختلف ویڈیوز منظرِ عام پر آتی رہیں، جن سے اُن کے نظریات کے بارے میں آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے۔
برہان وانی کشمیر میں بھارتی علاقوں میں رہنے والے ایسے ہندؤوں کی آباد کاری کے خلاف تھا جو کہ کشمیری نہیں ہیں۔ وہ کشمیر کو اسرائیل اور فلسطین طرز پر بدلنے کی مخالفت کرتے تھے۔ اس کے نزدیک کشمیری پنڈت کشمیر میں رہ سکتے تھے۔ برہان وانی نے بھارت سے آنے والے ہندو زائرین کے قافلے پر حملہ کرنے اور انہیں تکلیف پہنچانے سے سختی سے منع کیا۔ وہ کہتا تھا کہ،
’’ہماری جنگ بھارتی فوج کے ظالمانہ قبضے کے خلاف ہے۔ کشمیر میں بسنے والے لوگ کوئی بھی ہوں اور اُن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، اُن سے ہماری کوئی جنگ نہیں وہ ہمارے بھائی ہیں‘‘
برہان وانی کی ویڈیوز اور تصاویر چند گھنٹوں میں تمام سوشل میڈیا پر پھیل جاتی تھیں۔ اپنی تصاویر میں بہت پرعظم بھارتی سورماؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی عددی برتری کا مذاق اڑاتا رہتا تھا۔ اس کی ویڈیوز نوجوانوں کے اندر جذبہ جہاد کے تصور کو انڈیل کر “شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن” کا تصور ناصر کر رہی تھیں۔
برہان جدید ایجادات کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلح جدوجہد سے ایک طرف بھارتی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر نئے طوفان کی دستک دے رہا تھا تو دوسری طرف جو لوگ آزادی کو محض پرامن مظاہروں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے لیے جانے پر یقین رکھتے تھے ان کو یاد دہانی کروا رہا تھا کہ جنگیں پرامن رہ کر نہیں جیتی جاتیں۔آزادی صرف مظاہروں اور قراردادوں سے نہیں بلکہ چھین کرحاصل کرنی پڑتی ہے۔
وانی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ بھارتی میڈیا اُن کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے۔ اگر یہ لوگ واقعی سچ کہنا چاہتے ہیں تو انہیں کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیئے تاکہ انہیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا پتہ چل سکے۔ حقیقت یہی ہے کہ بھارتی میڈیا جھوٹ کی کاشت کر رہا ہے۔
8 جولائی 2016 کو وانی کو دو ساتھیوں کے ہمراہ شہید کیا گیا۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کی خبر پوری ریاست میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی، جبکہ نوجوانوں کی جانب سے اِس قتل پر شدید ردِعمل بھی دیکھنے میں آیا۔ احتجاج شروع ہوا تو سیکیورٹی فورسز اور نوجوانوں میں تصادم ہوگیا۔
2 روز کے دوران احتجاج میں 17 سے زائد افراد کو شہید کیا گیا۔ کشمیری نوجوانوں کی جانب سے فورسز پر پتھراؤ کیا گیا جبکہ ہندوستانی فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلے آنسو گیس استعمال کی مگر احتجاج قابو نہ ہونے پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ اُن کی شہادت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جس میں اب تک 200 سے زائد افراد شہید جبکہ 2 ہزار افراد کی آنکھیں ضائع ہوچکی ہیں۔ 20 ہزار افراد ایک سال میں زخمی ہوچکے ہیں۔
برہان وانی کا جنازہ بھی ایک مثال بن گیا اس کے جنازے کو سوشل میڈیا پر دیکھ کر لاکھوں مسلمانوں کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ کتنے جوانوں نے اپنی جان قربان کرنے کا ارادہ کیا. دنیا نے کشمیریوں کے اس انوکھے جذبے کو سلام پیش کیا۔
برہان کی کہانی جان کہ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی نہ کبھی ایک شریف شخص کے لیے بھی ہتھیار اٹھانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ برہان اس بات سے واقف تھا کہ اس کی موت ناگزیر ہے اس کے جنگ بھارت جیسے ایک ایسے ملک سے تھی جو لاکھوں کی تعداد میں فوج رکھتا ہے اور بہت بڑی ریاست کی مشینری اور مربوط نیٹ ورک کا مالک ہے۔ مگر جہاں بات جذبہ ایمان اور شوق شہادت کیا جائے وہاں مسلمان قوم کی کوئی ہمسری نہیں کرسکتا۔
مسلمان جنگجو ٹینکوں مشین کرو میزائلوں اور جیٹ طیاروں کے ہوتے ہوئے بھی میدانِ جنگ میں قدم رکھنے سے پہلے اپنے جذبہ ایمانی کو ٹٹولتا ہے۔ وہ اپنی نیت کی درستگی کرتا ہے تاکہ اس میدان کارزار میں قدم رکھنے کے ارادے کے پیچھے صرف رضا خداوندی کا حصول ہی کارفرما ہو۔
دنیا نے جان لیا کہ اس گیس کا دھواں پھپھڑوں میں اتارتے ہوئے اپنی آنکھوں کی قربانی دے کر پیلٹ گن کے فائر سہتے ہوئے غلام فضاؤں میں آزادی کے نعرے بلند کرنا جب کہ آپ ایک گولی کی دوری پر ہوں جو آپ کی سانسوں کے ڈور جسم سے منقطع کردے کس قدر مشکل ہے۔ مگر برہان وانی با سعادت زندگی اور بامراد شہادت ہماری نوجوان نسل کے لئے ایک واضح پیغام ہے۔
کشمیر ہماری شہ رگ ہے اسے آزاد کروانا ہمارا اولین فرض ہے۔ حکمرانوں کو بھی جاگ جانا چاہیے اور عہد کرنا چاہیے کہ اپنا مکمل کردار ادا کریں گئے۔ اقوام متحدہ کو کشمیر کی آزادی اور ان پر مظالم کی یاد دہانی کروانی چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم پر ستر سال سے خاموش ہے - کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو پچھلے سال اگست سے بھارت نے ہماری شہ رگ کو دبوچا ہوا ہے - یہ کیسی شہ رگ ہے ؟ کیا ایسے میں ہمارا جواب سخت نہیں ہونا چاہیئے ؟
اللہ برہان وانی اور شہداء کشمیریوں کے درجات بلند فرمائے آمین !
No comments:
Post a Comment