تعارف - “خاک اور خُون“ - مصنف: نسیم حجازی - ١٨ اگست ، ٢٠٢٠
ایک گھر کی لائبریری سے ایک کتاب پکڑی جس کا بہت پہلے سے علم تھا - کتاب کا نام ہے “خاک اور خون“ جسے نسیم حجازی نے تحریر کیا تھا اور اس پر چالیس سال پہلے ایک پاکستانی فلم بھی بن چکی ہے - نیچے اس کتاب کے شروع میں دیا ہوا تعارف پیشِ خدمت ہے جو پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے ١٩٧٤ (انیس سو چوہتر) میں لکھا ہے
تعارف :
بھارت نے تقسیم کے عمل اور پاکستان کے قیام کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا - اس کے حکمرانوں کی اولین کوشش یہ تھی کہ پاکستان کے لیے حالات اتنے ناسازگار بنا دیے جائیں کہ اس کی تعمیر کسی محکم بنا پر نہ ہو سکے اور جُونہی موقع ملے، اسے نیست و نابود کیا جا سکے، خواہ فسادات کی آگ سے ، خواہ اقتصادی حربوں سے، خواہ داخلی انتشار سے، خواہ فوجی کاروائی سے -
چنانچہ اگست ١٩٤٧ ( انیس سو سینتالیس ) میں ہی مسلح ہندو اور سکھ جتھوں نے اتنے وسیع پیمانے پر ماردھاڑ اور آتشزدگی کی کہ آناََ فاناََ سارا مشرقی پنجاب اس کی لپیٹ میں آگیا اور پھر دہلی، اجمیر، یوپی کے شمالی اضلاع اور بھرت پور سے لے کر جموں و کشمیر تک کی تمام ریاستیں اس کی زد میں آگئیں
وہ آبادیاں جو صدیوں سے امن کی زندگی بسر کر رہی تھیں اور جن کے تصور میں بھی یہ قیامت خیز مناظر نہ تھے، تباہ ہو گئیں - سارا نظامِ معیشت درہم برہم ہو گیا - ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے موت کے گھاٹ اُتارے گئے - لاکھوں بے گھر ہوئے اور ہجرت پر مجبور ہوئے - اُنھیں کے خُون اور آنسووں سے پاکستان کی تعمیر ہُوئی
یہی وہ حکایاتِ خونچکاں ہیں جنھیں نسیم حجازی نے اپنے ناقابلِ فراموش ناول “خاک و خون“ میں پیش کیا ہے - ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے “ خاک و خون “ کی اہمیت یہی نہیں کہ یہ داستان ہمارے ماضی کے بُنیادی دَور سے تعلق رکھتی ہے اور اسے پڑھنے والوں کے دلوں میں ١٩٤٧ ( انیس سو سینتالیس ) کی ہولناکیوں کی یاد تازہ ہوتی رہے گی اور وہ اس خطہ زمین کی قدرو قیمت کا صحیح اندازہ لگا سکیں گے جو ہم نے بے مثال قُربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے بلکہ یہ کتاب اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ نسیم حجازی کی بصیرت نے قوم کو جن خطرات سے خبردار کیا تھا، وہ پُوری شدت کے ساتھ ہمارے سامنے آچکے ہیں
تقسیم سے قبل اور تقسیم کے بعد آج تک ہماری آزادی اور بقا کے دشمنوں کا نصب العین “ اکھنڈ بھارت “ ہے تاکہ عملاََ سارے براعظم میں ہندو تہذیب و تمدن کی برتری کا سکہ رائج ہو سکے - اور وہ اس مقصد کی تکمیل کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے
پاکستان کو مسلمانوں کے اجتماعی احساس و شعور نے جنم دیا تاکہ وہ اپنے وطن میں اسلامی اقدار کی بنا پر ایک عادلانہ نظام قائم کر سکیں - ہم اپنے ماضی کے ان بلند حوصلوں کے امین بن کر ہی اپنے حال اور مستقبل کی زمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں جن کی بدولت ١٩٤٧ ( انیس سو سینتالیس ) میں “ آگ اور خون “ کے طوفانوں سے سُرخرو ہو کر نکلے تھے - اس لیے ہمارے ماضی کی یہ داستان ہمارے مستقبل کے لیے ایک مستقل پیغام بھی ہے
مرتب : سید رُومان اِحسان - ١٨ اگست ، ٢٠٢٠
No comments:
Post a Comment