دنیا اور آخرت
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اس دوزخی کو لایا جائے گا جو اہلِ دُنیا میں سے سب سے زیادہ خوشحال تھا، پھر اُسے آگ میں ایک غوطہ دیا جائے گا، پھر اُس سے پوچھا جائے گا کہ اے آدم ّ کے بیٹے کیا تُو نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی، کیا تُجھ پر کبھی راحت گزری؟ تو وہ جواب دے گا کہ نہیں، خدا کی قسم اے میرے رب (میں نے کبھی راحت نہیں دیکھی) -
اور (ایسے ہی) اس جنتی کو لایا جائے گا جو دُنیا میں سب لوگوں سے زیادہ تکلیف میں رہا ہوگا اور اُسے جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا، پھر اسے کہا جائے گا کہ اے آدمّ کے بیٹے کیا تُو نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی، کیا تُجھ پر کبھی کوئی شدت گزری؟ تو وہ کہے گا کہ نہیں، خدا کی قسم اے میرے رب، مجھ پر کبھی کوئی تکلیف نہیں گزری اور نہ میں نے کبھی کوئی شدت دیکھی- (صحیح مُسلم)
تشریح :- اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے مُراد یہ واضح کرنا ہے کہ دُنیا کا عیش و آرام آخرت کے عیش و آرام کے مقابلے میں بالکل عارضی اور انتہائی گھٹیا ہے اور یہی حال دُنیا کی تکالیف کا بھی ہے کہ وہ بھی آخرت کے عذاب کے مقابلے میں انتہائی عارضی اور بالکل معمولی ہیں-
لہٰذا وہ شخص جو دُنیا میں انتہائی عیش و آرام میں رہا ہو گا، مگر ہو گا خدا کا نافرمان، وہ صرف ایک دفعہ جہنم میں غوطے دیئے جانے کے بعد اپنی دنیوی آسائش و آرام کو اس طرح بُھول چکا ہو گا کہ خدا کی قسم کھا کر کہے گا کہ میں نے تو کبھی کوئی آرام دیکھا ہی نہیں اور ایسے ہی جو شخص دُنیا میں سب سے زیادہ تکالیف کا شکار رہا ہو گا، مگر ہو گا خدا کا فرمانبردار، اُسے جنت میں ایک ہی غوطہ دیا جائے گا تو وہ اپنے سارے دُکھ درد اس طرح بُھول جائے گا کہ خدا کی قسم کھا کر کہے گا کہ میں نے تو کبھی کوئی تکلیف دیکھی ہی نہیں -
No comments:
Post a Comment