Wednesday 20 August 2014

آنکھوں کی ٹھنڈک [Urdu Post]




آنکھوں کی ٹھنڈک

یہ اُس دور کی بات ہے جب بغداد ہلاکو خان کی تباہیوں سے اُجڑ گیا تھا۔مسلم دنیا میں علم و ادب کا مرکز سمجھا جانے والا بغداد اپنی قسمت پر رو رہا تھا۔لیکن کوئی نہیں تھا جو اُسے بچانے آتا اور آتا بھی کیوں ؟اس لئے کہ امیر بغداد کا حال یہ تھا کہ ہیرے اور جواہرات کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی تھی۔
جب ہلاکو خان نے امیر بغداد کو اُس کے محل سے گرفتار کر لیا تو اپنی فوج کو حکم دیا کہ اس کے محل سے جمع کئے جانے والے سارے ہیرے جواہرات اس کے سامنے لا کر ڈھیر کردو۔چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔

ہلاکو خان امیر بغداد سے مخاطب ہوا۔" سُنا ہے کہ تم اکثر کہا کرتے تھے کہ ہیرے جواہرات دیکھنے سے تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو آج تم ان سے اپنا پیٹ بھی ٹھنڈا کرو۔“

اُس نے امیر بغداد کو حکم دیا کہ وہ ہیرے کھائے ،تاکہ وہ دیکھے کہ دولت کے لالچیو ں کا انجام کیا ہوتا ہے ۔؟

امیر بغداد کی آنکھوں کو آج یہ ہیرے جواہرات ٹھنڈا نہیں کر پارہے تھے ،بلکہ ان میں موت کا خوف رقص کر رہا تھا۔ایک ایسا خوف جو اُس نے اپنی زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ہلاکو خان کی چنگھاڑتی ہوئی آواز بلند ہوئی ۔میں کہہ رہا ہوں انہیں کھاؤ۔

ساتھ ہی اُس نے اپنے وحشی اور جنگلی سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ تلوار اُس کے سر پر تان لو۔امیر بغداد ایک نظر ہیروں کے ڈھیر پر ڈالتا اور ایک نظر ان وحشی جنگجوؤں پر جنھوں نے بغداد میں مسلمانوں کے سروں کے مینار قائم کئے تھے۔امیر بغداد کے وجود پر کپکپی طاری تھی اور چند ماہ پہلے مسلمانوں کے شاہ خوارزم کے لکھے ہوئے خط کے الفاظ اُس کی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے تھے۔شاہ نے امیر بغداد کو ہلاکو خان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ساتھ لڑنے کی تجویز دی تھی،اُس سے اپیل کی تھی کہ ہم اُسے وسطی ریاستوں ہی میں روک دیں ،اگر ایسا کر لیا گیا تو نہ صرف مسلمانوں کی ریاستیں بچ جائیں گی بلکہ علم و ادب کا مرکز بغداد بھی بچ جائے گا لیکن امیر بغداد نے جواب میں لکھا تھا ،تم اُس سے اکیلے نمٹو ،مجھ تک آنے میں اُسے صدیاں لگیں گی اور اُس وقت تک ہلاکو خان کی ہڈیاں بھی گل چکی ہوں گی لیکن ایسا نہیں ہوا تھا،ہلاکو خان کی وحشی اور درندہ صفت فوجوں نے چند ماہ میں مسلمانوں کے سارے علاقوں کو ایک ایک کرکے روندھ ڈالا تھا۔امیر بغداد سوچ رہا تھا ،کہ اگر شاہ خوارزم کی بات مان لی ہوتی تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتے،لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔

ایک بار پھر ہلاکو خان کی چنگھاڑتی ہوئی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے امیر بغداد نے اپنے سامنے رکھے ہیروں کے ڈھیر سے مُٹّھی بھر لی حالانکہ اُس کی موت کے لئے صرف ایک ہیرا ہی کافی تھا۔


امیر بغداد نے ہلاکو خان کی آگ برساتی آنکھوں کی طرف دیکھا ،وہ جانتا تھا کہ اس شخص میں رحم نام کا کوئی مادہ نہیں ،اس سے زندگی کی بھیک مانگنا بیکار ہے۔ایک ایسا شخص جو انسانی لاشوں پر دسترخوان بچھاتا ہو ،اُس کے نزدیک بھلا ایک شخص کی موت کیا معنی رکھتی ہے ،لیکن اُس کے باوجود امیر بغداد نے زندگی کی بھیک مانگ لی ۔
مجھے معاف کردو ،میری زندگی بخش دو،آخر ایک زندگی بخش دینے میں تمھارا کیا جائے گا؟؟؟؟

امیر بغداد نے گڑگڑانا شروع کردیا۔
ہلاکو خان کے چہرے کا تناؤ کم ہونے کی بجائے کچھ اور بڑھ گیا۔وہ بولا،کیا تمہیں پتہ ہے کہ آج تمہیں کس چیز کی سزا دی جارہی ہے؟؟؟امیر بغداد نے انکار میں سر ہلایا۔ہیرے ابھی تک اُس کی مُٹّھی میں تھے۔
میں تمہیں بتاتا ہوں۔ہلاکو خان نے کہا،تم وہ مجرم ہو جس نے ہزاروں ،لاکھوں لوگوں کو دھوکے میں رکھا ہے،تم وہ شخص ہو جو محض اپنے لئے زندہ رہتے ہو،تمہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ تمہارے قبیلے اور تمہاری قوم کو کن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے؟تم وہ شخص ہو جو صرف دولت کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہو،تم حریص،لالچی اور غافل انسان ہو اور حد تو یہ ہے کہ تم ایسے شخص ہو جو اپنی غفلت سے بھی لاعلم ہے۔مجھے حیرت ہے اُن لوگوں پر جو تم جیسے لوگوں کو اپنا امیر بناتے ہیں۔

ہلاکو خان نے اتنا کہا اور اپنے فوجی کو تلوار کھینچ لینے کا اشارہ کرتے ہوئے امیر بغداد سے کہا کہ " ہیروں کا ذائقہ چکھو اور مجھے بتاؤ کہ دیکھنے میں خوشنما یہ سوغات کھانے میں کیسی ہے؟؟؟؟“

کہتے ہیں کہ اگلے ہی لمحے امیر بغداد نے ہیرے اپنے پیٹ میں‌اُتار لئے ۔ہلاکو خان اُس کے مرنے کا تماشا دیکھ کر محظوظ ہوتا رہا۔پھر امیر بغداد کی لاش کو ٹھوکر مار کر کہنے لگا۔

" عیش و آرام کے دلدادہ اور غافل لوگوں کا انجام یہی ہونا چاہیئے ،میرے انصاف کا یہی تقاضا ہے ۔“


نوٹ :۔ حوالہ نہیں پتہ مجھے نہ کتاب کا نام ،کافی پہلے پڑھا تھا شائد کوئی اداریہ تھا۔

No comments:

Post a Comment