بھارت اورمقبوضہ کشمیر
بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں اب بس وقت درکار ہے اور وہ ہم اسے بغیر کسی رکاوٹ کے دے رہے ہیں. مودی اب ریپ، نسل کشی، آبادی کے اعداد و شمار میں رد و بدل کرکے اور ہندوؤں کیلئے نئی بستیاں آباد کرکے کشمیریوں کا حوصلہ اور انکی تحریک آزادی کو مکمل طور پر ختم کرنے جا رہا ہے.
اب جبکہ پاکستانی حکومت مقبوضہ کشمیر میں طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہتی، تو شاہ محمود قریشی کی نام نہاد کامیاب سفارتکاری کے باوجود مودی پر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم کرنے اور کشمیریوں کی نسل کشی سے باز رہنے کیلئے کوئی بین الاقوامی دباؤ قطعاً نہیں ہے. اب ہمارے پاس کیا راستہ ہے؟ کشمیریوں کو تحریک آزادی کیلئے ہر طرح مدد فراہم کرنا.
اگر پاکستان کشمیر کی جائز تحریک آزادی کیلئے مسلح جدوجہد کی حمایت اور محصور کشمیریوں کی زندگیوں کو آر-آر-ایس کے غنڈوں سے بچانے کیلئے مجاہدین اور ہتھیار بھیجنے کا اعلان کرتا ہے تو یہ کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہو گی. یہاں قانون اور اخلاقیات ہمارے ساتھ ہیں.
مقبوضہ کشمیر کو ضم کرکے بھارت پہلے سے ہی جنگ کا آغاز کر چکا ہے. اب بھارت آزاد کشمیر میں اپنی مرضی کے وقت جنگ کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے جا رہا ہے. بھارتیوں سے نمٹنے کے دو ہی طریقے تھے. پہلے حملہ کرنا یا انکنے حملے کا انتظار کرنا. جنگ سے تو اب کسی صورت نہیں بچا جا سکتا.
فروری میں ہم نے دشمن سے نرمی کی. نتیجہ کیا نکلا؟ چھ مہینے بعد ایک اور جنگ. اب دشمن پہلے سے زیادہ تیار اور مسلح ہے. اور مقبوضہ کشمیر کو ضم بھی کر چکا ہے. جنگ سے بچنے کیلئے کب تک ہم دشمن کو خیر سگالی کے پیغامات دیتے رہیں گے؟
میں جنگ کو نہیں بھڑکا رہا. میں صرف ایک سادہ سا سوال پوچھ رہا ہوں جسکے جواب پر ہماری خودمختاری کا انحصار ہے.
"جب جنگ ناگزیر ہے تو کونسا طریقہ بہتر ہے؟
جنگ دشمن ملک کے اندر جا کر لڑنا؟
یا جنگ اپنے شہروں میں لڑنا؟"
بہرحال اب تو جنگ سے قطعی نہیں بچا جا سکتا!
( زید زمان حامد)
No comments:
Post a Comment