عالمی جغرافیائی سیاست کی بساط
تحریر: سید زید زمان حامد
ترجمہ: ابو حذیفہ
مشرق وسطیٰ میں اس وقت عقل کو چکرا دینے والا فساد و انتشار برپا ہے۔ یہ دور دجل و فریب، جھوٹی اطلاعات کی نشرواشاعت اور نفسیاتی جنگ کا ہے۔ جہاں سحر سامری کے جدید حربے انسان کے ذہن کو غلام بنانے کا کام دے رہے ہیں۔جس میں میڈیا جدید ترین اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ سی این این، بی بی سی، فاکس وغیرہ محض نیوز چینلز ہی نہیں ہیں، یہ ابلاغی جنگ میں ان جدید نفسیاتی ہتھیاروں سے لیس پلیٹ فارمز ہیں کہ جو ایٹمی ہتھیاروں کی طرح وسیع پیمانے پر تباہی پھیلارہے ہیں۔اگر آپ پوری طرح چوکنا نہیں ہیں تو یہ اپنے جھوٹے بیانیوں سے آپ کو مخمسے میں مبتلا کرکے نظریاتی تذبذب اور خوف کے اندھے کنویں میں دھکیل دیں گے۔ عام آدمی کیلئے میڈیا کے جھوٹ سے بچنا ناممکن ہے۔
عالمی جغرافیائی سیاست کا تجزیہ کرکے تہہ میں پہنچیں توپتہ چلے گا کہ مشرق وسطیٰ میں فساد اور افراتفری کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ ”عظیم تر اسرائیل“ کا قیام۔ باقی جو بھی انتشار جہاں بھی ہے، اسی ”عظیم مقصد“ کا شاخسانہ ہے۔اسرائیل کے دفاع اور تحفظ کیلئے اس کے گرد و پیش میں موجود تمام تر مسلم ممالک کا خاتمہ لازم ہے۔ اوراس کے دفاع اور تحفظ کیلئے یہ بھی اتنا ہی لازم ہے کہ کسی اسلامی ملک کے پاس جوہری ہتھیار بھی نہ ہوں۔اسرائیل اور بھارت کے اتحاد کا بھی یہی مقصد ہے اور آنے والے دنوں میں اسی اتحاد کی وجہ سے جنوبی ایشیاءمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک خونریز جنگ بھی برپا کی جائے گی۔
اگرچہ ترکی ایک جوہری طاقت نہیں ہے، لیکن وہ ماضی کی ایک شاندار تاریخ اور تہذیب کا امین ہے، لہذا اسرائیل کیلئے ترکی کو راستے سے ہٹانا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ پوری عرب دنیا میں خلافت عثمانیہ کے احیاءکا خوف پیدا کرکے اسے ترکی کے خلاف متحرک کررہے ہیں۔
جنوبی ایشیاءمیں آر ایس ایس کی نازی جماعت کا ابھرنا اور اس کا اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے خلاف اشتراک بھی اس سارے تناظر کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ کیونکہ پاکستان ہی اپنے جوہری ہتھیاروں، اسلامی نظریاتی اساس اور جنگ کی بھٹی میں تپائی گئی فوج کے ساتھ، اسرائیل کے وجود کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اسی خطرے کے سدباب کیلئے آر ایس ایس کی قیادت میں بھارت کو جلد از جلد پاکستان کے خلاف مشن سونپا جانا لازمی تھا۔
دوسری طرف امریکہ کے بڑے تزویراتی اہداف میں : اسرائیل کا دفاع، مسلم دنیا کوجوہری طاقت سے محروم کرنا، اسلام کا بحیثیت ایک سیاسی قوت سدباب کرنا، زیادہ سے زیادہ قدرتی وسائل اور ایندھن کے ذرائع پر اختیار حاصل کرنا، پانی اور تجارتی راستوں پر اجارہ داری اور چین اور روس کی جغرافیائی و اقتصادی پیش رفت کے آگے بند باندھنا شامل ہیں۔
اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ ابھی تک پوری طرح محفوظ نہیں ہوا،اگرچہ وہ یہ کہتا ہے کہ اسے اپنے ہمسایہ عرب ممالک سے اب کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک پاکستان اور ترکی اپنی جوہری اور فوجی طاقت کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں، اسرائیل کبھی بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرسکتا۔ اسی خطرے کا قلع قمع کرنے کیلئے اسرائیل، امریکہ۔عرب اتحاد کو ترکی کے خلاف، اوربھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔
یعنی اگر ہم حقیقت کی دنیا میں رہتے ہوئے صورتحال کا جائزہ لیں تو اسرائیل کو اپنی بقاءکیلئے مزید جنگوں کی ضرورت ہے اور اب یہ جنگیں شروع بھی ہوچکی ہیں۔ مشرقی وسطیٰ میں بھی اور جنوبی ایشیاءمیں بھی۔ پاکستان اورترکی کو گرانا اس مقصد کیلئے ناگزیر ہے، اور اس مقصد کے حصول کیلئے خلیجی ممالک، عرب دنیا اور بھارت کے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
بھارت جانتا ہے کہ پاکستان اسرائیل کیلئے خطرہ ہے اور اسی اسرائیلی خوف کو آر ایس ایس کے صیہونی استعمال کرکے اپنے توسیعی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ جن میں سرفہرست ”اکھنڈ بھارت“ کے دیو مالائی تصور کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اور جس کے لیے انہیں پاکستان سے ایک آخری اور نتیجہ خیز جنگ لڑنا ہوگی۔اسی مقصد کے حصول کیلئے بھارت اسرائیل کی دلالی کررہا ہے کہ جس کے صلے کے طور پراسے عالمی سطح پر امریکہ اور ا سکے حواریوں کی طرف سے تحفظ، اسلحہ اور ٹیکنالوجی مل رہی ہے، اور یہی وہ وجہ اور ضمانت ہے کہ جس کے بل بوتے پر مودی نے تمام تر دباﺅ کے باوجود نوے لاکھ کشمیریوں پر کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔عالمی سیاست کا غنڈہ اسرائیل اپنے تمام تر سفارتی اثرورسوخ، اقتصادی طاقت اور وائٹ ہاﺅس میں اپنے اثر کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھارت کی پوری طرح پشت پناہی کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 70 دن کے شدید ظالمانہ کرفیو کے باوجود بھارت اس حوالے سے کوئی خاص دباﺅ محسوس نہیں کررہا۔
وزیراعظم عمران خان اپنی تمام تر نمائشی خود اعتمادی کے ساتھ بھی بھارت پر کوئی دباﺅ ڈالنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اورا ب یہ صورتحال ہے کہ پاکستان کے پاس مزید چالیں چلنے کو بھی کچھ نہیں بچا، سوائے اس کے کہ اب انتظار کریں۔ یہ بات مودی کے لیے نہایت اطمینان کا باعث ہے کہ وہ کشمیر کے محاذ پر پاکستان کے خلاف سفارتی جنگ جیت رہا ہے۔ اس موجودہ صورتحال کو اگر بدلنا ہے تو پاکستان کو کوئی بہت بڑا غیرروایتی قدم اٹھاناہوگا۔ کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ جو مودی کو اس قدر تکلیف میں مبتلا کردے کہ اسے اپنی موجودہ پالیسی بدلنی پڑے۔ بصورت دیگر مودی اپنے منصوبے کے اگلے مرحلے کی طرف پیش قدمی کرتا جائے گا، اور نتیجتاً ریاست پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑسکتا ہے۔
اس سب سے یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ ہم جنگوں کے ایک طویل سلسلے میں داخل ہوچکے ہیں کہ جو مسلم ممالک کے قلب میں لڑی جائیں گی اور جس کی لپیٹ میں پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا ہوگی۔ مشرق میں پاکستان سے لیکر مغرب میں ترکی تک، اور اس کے بیچوں بیچ مشرق وسطیٰ کا میدان جنگ، کہ جسے فتح کرنا اسرائیل کا سب سے بڑا خواب ہے۔
آج جو آپ پاکستان اور بھارت کے بیچ نسبتاً ٹہراﺅ دیکھ رہے ہیں، یہ دراصل ایک بڑے طوفان کی آمد سے پہلے کی خاموشی ہے۔ امن پسندی اور عدم تشدد کی نفسیات سے پاکستان کی قیادت کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ بلکہ یہ ممکنہ بھارتی حملے کی صورت میں قوم کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث ہوگا۔پاکستان کی قیادت اور قوم کو یہ سمجھتا ہوگا کہ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے!!!
No comments:
Post a Comment