جاوید چوہدری
زیرو پوائنٹ
میں نے بھی تالی بجائی
پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات آج جیسے تھے‘ انڈسٹری بند ہو رہی تھی‘ جنرل یحییٰ خان نے 303 بیورو کریٹس کو نوکریوں سے نکال دیا چناں چہ افسروں نے خوف زدہ ہو کر کام بند کر دیا تھا‘ فائلیں رک گئی تھیں اور محکمے نیچے آنا شروع ہو گئے تھے‘ ملک میں عیاشی اور طوائف الملوکی کا دور بھی شروع ہو گیا تھا‘ گانے والیاں بڑے بڑے فیصلے کرا دیتی تھیں اور رہی سہی کسر 1970ءکے انتخابات نے پوری کر دی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان اور شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کر لی‘ شیخ مجیب کی نشستیں ذوالفقار علی بھٹو سے کہیں زیادہ تھیں مگر خوب صورت اور بہادر جنرل یحییٰ خان ”بدصورت اور ٹھگنے“ بنگالیوں کو اقتدار نہیں دینا چاہتے تھے لہٰذا ملک میں خوف ناک سیاسی بحران پیدا ہو گیا‘ 1970ءمیں قومی اسمبلی ڈھاکا اور وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں ہوتا تھا گویا آئینی قبلہ مشرقی پاکستان اور حکومتی مرکز مغربی پاکستان ہوتا تھا‘الیکشن کو چارماہ گزر گئے مگر قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس نہ ہو سکا‘ جنرل یحییٰ خان اجلاس کے راستے میں رکاوٹ بن گئے‘ کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتے تھے شیخ مجیب الرحمن اسمبلی کے پہلے اجلاس ہی میں وزیراعظم بن جائیں گے اوریہ لوگ کسی بھی قیمت پر یہ دن نہیں دیکھنا چاہتے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو بھی شیخ مجیب کو مسند اقتدار پر دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھے چناں چہ انہوں نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیا ”جو بھی ڈھاکا جائے گا ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے“۔
یہ سیاسی بحران تیزی سے فوج کے امیج کو نقصان پہنچانے لگا‘ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو مشیروں نے مشورہ دیا ہم اگر پاکستان پر حملہ کریں تو عوام اپنی فوج کا ساتھ نہیں دے گی لہٰذا ہم 1965ءکی ہزیمت کا بدلہ لے لیں گے‘ اندراگاندھی قائل ہو گئی اور اس نے 22 نومبر کو عیدالفطر کے دن اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں‘ پاکستانی فوج نے بھارتی توقعات کے برعکس بے جگری سے جواب دیا‘ بھارت کے چھکے چھوٹ گئے‘ بھارت کا خیال تھا یہ مغربی سرحدوں کو چھیڑے بغیر مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لے گا لیکن پاک فوج کے ردعمل نے اسے پریشان کر دیااور یہ پاکستان کی توجہ تقسیم کرنے کے لیے 3 دسمبر کو مغربی پاکستان پر بھی حملہ کرنے پر مجبور ہو گیا۔
پاکستانی فوج جذبے کے ساتھ لڑ رہی تھی لیکن سیاسی طاقت اس وقت فوج کے ساتھ نہیں تھی لہٰذا پاکستان دباﺅ میں آ گیا‘ آغا شاہی اس وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے تھے‘ یہ چار دسمبر کو سلامتی کونسل چلے گئے‘ سوویت یونین بھارت کا اتحادی تھا‘ روس نے بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کو سلامتی کونسل میں فریق بنانے کی قرارداد پیش کر دی‘ چین اس وقت بھی پاکستان کا دوست تھا‘ چین نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا‘ جنرل یحییٰ خان کو پاکستان اور فوج دونوں کو بچانے کے لیے سلامتی کونسل میں موثر آواز چاہیے تھی اور ملک میں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ کوئی موثر آواز نہیں تھی۔
جنرل یحییٰ خان نے بھٹو صاحب کو تیار کیا اور انہیں وزیر خارجہ کا اعزازی ٹائٹل دے کر سلامتی کونسل بھجوا دیا‘ بھٹو صاحب 11 دسمبر 1971ءکو نیویارک پہنچ گئے‘ امریکا اور چین نے فائر بندی کی قرارداد پیش کر رکھی تھی‘ اس دوران پولینڈ نے بھی سوویت یونین کی مدد سے سیز فائر کی درخواست جمع کرا دی چناں چہ اقوام متحدہ کے پانچ میں سے تین مستقل ارکان سیز فائر پر متفق ہو گئے‘ پاکستان جنگ ہار رہا تھا‘ ہمارے 90 ہزار فوجی مشرقی پاکستان میں پھنس چکے تھے۔
فائر بندی اس وقت پاکستان اور پاک فوج کے لیے واحد آپشن بچا تھا‘ 15 دسمبر کا دن آ گیا‘ ذوالفقار علی بھٹو سلامتی کونسل پہنچے‘ ایک خوف ناک جذباتی تقریر کی‘ سلامتی کونسل کو برا بھلا کہا‘ پولش قرارداد پھاڑ کر پھینکی اور یہ فرما کر ”ہم (ہزار سال تک) لڑیں گے“ سلامتی کونسل کے فلور سے اٹھ گئے‘ یہ تقریر پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی تھی‘ قوم نے حلق کی پوری طاقت سے جیے بھٹو کا نعرہ لگایا اور تالیاں بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن اس شان دار تقریر کے اگلے دن کیا ہوا؟ 16 دسمبر 1971ءکو جنرل نیازی نے ڈھاکا کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیے۔
پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا‘ بھٹو صاحب کی تقریر شان دار تھی‘ شان دار ہے اور شان دار رہے گی لیکن ہم نے اس شان دار تقریر کے بدلے میں کیا پایا؟ ہم نے آدھا پاکستان گنوا دیا‘ مورخین آج بھی کہتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو اگر اس دن جذباتی تقریراور کاغذات پھاڑنے کی بجائے پولینڈ کی قرار داد پاس ہونے دیتے تو سیز فائر ہو جاتا‘ فوجیں واپس چلی جاتیں اور شاید پاکستان بچ جاتا لیکن یہ نہ ہو سکا اور یہ حقیقت ہے ماضی ماضی ہی ہوتا ہے اور شاید قدرت بھی ماضی کو نہیں بدل سکتی۔
وزیراعظم عمران خان کی 27 ستمبر کی تقریر بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو کی 15 دسمبر 1971ءکی تقریر سے زیادہ شان دار اور جان دار تھی‘ میں نے بھی تقریر کے بعد قوم کے ساتھ کھڑے ہو کر عمران خان کے لیے تالی بجائی تھی‘ ہم بہادر لیڈر شپ کو ترسے ہوئے لوگ ہیں‘ ہم جب بھی اپنے کسی لیڈر کو دنیا کو للکارتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر جذبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور ہم دل کھول کر اس کی تعریف بھی کرتے ہیں‘ عمران خان نے بھی 27 ستمبر کو سلامتی کونسل کے ڈائس پر کھڑے ہو کر جو کہا قوم یہ دہائیوں سے سننا چاہتی تھی۔
ہم چاہتے تھے ہمارے لیڈر اقوام عالم کے درمیان کھڑے ہو کر پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ لڑیں لیکن بدقسمتی سے ماضی کا کوئی بھی لیڈر اقوام متحدہ میں عمران خان کی طرح کھل کر بات نہیں کر سکا‘ عمران خان کی باتوں میں درد بھی تھا‘ جذبہ بھی‘ دلیل بھی اور اثر بھی‘ پوری دنیا نے اس تقریر کو سراہا اور میں دل سے سمجھتا ہوں عمران خان نے 27 ستمبر 2019 ءکودوسری بار ورلڈ کپ حاصل کر لیا‘ یہ مدر آف آل ورلڈ کپس لے کر پاکستان آئے‘ مجھے افسوس ہے میں ان کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ نہیں جا سکا۔
یہ تقریر واقعی جان دار اور شان دار تھی لیکن اس شان دار تقریر کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے آج مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو 59 دن ہو چکے ہیں اور دنیا کے 245 اور اقوام متحدہ کے 193رکن ملکوں میں سے کسی ملک نے بھارت کو کرفیو اٹھانے کا حکم نہیں دیا‘ سعودی عرب کے ولی عہد نے ہمارے وزیراعظم کو نیویارک جانے کے لیے اپنا جہاز دے دیا مگر نریندر مودی کو”کرفیو اٹھا دو“ کا ایک ایس ایم ایس تک نہیں کیا‘ طیب اردگان اور مہاتیر محمد نے بھی سلامتی کونسل میں کشمیر کا ذکر کیا مگر بھارت کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
چین‘ روس اور امریکا کشمیر کے ایشو پر ہمارے ساتھ ہیں مگر یہ نریندر مودی کونہیں سمجھا رہے اور ہم نے شان دار خطاب فرما کر دوسری بار ورلڈ کپ بھی لے لیا مگر ہم اس تقریر کے باوجود کشمیر حاصل کر سکے اور نہ ہی کشمیریوں کو ”کرفیو اٹھ گیا“ کی خوش خبری دے سکے‘تقریر کے باوجود حالات جوں کے توں رہے۔میں دل پر بھاری پتھر رکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوں دنیا کے مسئلے اگر تقریروں سے حل ہو سکتے تو کشمیر 27 ستمبر کو آزاد ہو چکا ہوتا۔
دنیا میں اگر تقریریں سب کچھ ہوتیں تو عمران خان 27 ستمبر کو دنیا کے سپر سٹار اور نریندر مودی زیرو سٹار بن چکے ہوتے اور راوی صرف اور صرف عمران خان کے لیے بانسری بجا رہے ہوتے مگر یہ دنیا بڑی ظالم ہے‘ اس میں مودی تقریر کا مقابلہ ہارنے کے باوجود جیت کر دہلی پہنچ جاتا ہے اور ہم تقریر کا ورلڈ کپ لے کر بھی خالی ہاتھ اسلام آباد آتے ہیں‘ ہم سچے ہیں لیکن ہماری جھولی خالی ہے جب کہ مودی جھوٹا ہے اور اس کی جھولی میں کشمیر چمک رہا ہے۔
ہمیں تقریریں ضرور کرنی چاہئیں‘ لیڈروں کو دلائل اور بے خوفی بڑا لیڈر بناتی ہے ہمیں بھی بڑا لیڈر بننا چاہیے مگر یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے قوموں کو تقریریں نہیں اندرونی استحکام‘ معاشی توازن اور سیاسی اتحاد بچایا کرتے ہیں چناں چہ کشمیرجب بھی آزاد ہوگا مضبوط پاکستان کے ذریعے آزاد ہو گا‘ تقریروں اور خطبوں سے نہیں‘ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کے سو سالوں سے بہتر ہوتی ہے‘ یہ بات صرف کتابوں میں اچھی لگتی ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے بنگال گیدڑ چھین کر لے گئے تھے اور میسور کے شیر کے ہاتھ میں اس ایک فقرے کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔
لہٰذا محترم وزیراعظم! مقدمے جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں یہ سننے کے لیے نہیں کہ بے گناہ ملزم پھانسی پر لٹک گیا مگر وکیل کے دلائل نے جج کو انگلی دانتوں میں دابنے پر مجبور کر دیا اور جنگیں بھی جیتنے کے لیے لڑی جاتی ہیں مخالف فوجوں سے تالیاں بجوانے کے لیے نہیں۔عمران خان کی تقریر ذوالفقار علی بھٹو کے خطاب سے اچھی تھی مگر سوال یہ ہے قوم کو چسکے کے علاوہ تقریر سے کیا ملا؟آپ اگر مزید چسکا لینا چاہتے ہیں تو آپ سلامتی کونسل کے آرکائیو سے یاسرعرفات‘ ہیوگو شاویز‘ معمر قذافی اور خروشیف کی تقریریں نکال کر سن لیں۔
آپ تالیاں بجا بجا کر پاگل ہو جائیں گے‘ خروشیف نے تو اپنا جوتا ڈائس پر مار کر کہاتھا ”میں تمہیں دفن کردوں گا“ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ سوویت یونین ٹوٹ گیا‘ قذافی کی لاش گلیوں میں گھسیٹی گئی‘ ہیوگوشاویز کاملک خوف ناک کساد بازاری کا شکار ہوگیا اور یاسرعرفات کا فلسطین آج بھی اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے لہٰذا تاریخ کہتی ہے قوموں کو محمد بن قاسم چاہیے ہوتے ہیں‘ محمد بن قاسم کی تقریریں نہیں اور ہم خطاب کے ذریعے دنیا فتح کرنا چاہتے ہیں اور یہ صرف ہم ہی کر سکتے ہیں۔🌹
No comments:
Post a Comment