Sunday 26 July 2015

اداسیاں




اداسیاں
یار یہ جو اداسیاں ہیں ناں
یہ کوئی بے سبب نہیں ہوتیں
ان میں ہوتی ہے ایک ذات اپنی
ان کی ہوتی ہے ایک بات اپنی
ان کے تیور کمال ہوتے ہیں
یہ کسی سے خفا نہیں ہوتیں
یہ کسی کو خفا نہیں کرتیں
ان کی عادت ہے بے ضرر کتنی
لوگ دنیا کے جو ستائے ہوں
وہ جو تنہائیوں کے مارے ہوں
ہاتھ یہ ان کا تھام لیتی ہیں
اور سب سے بڑا ہے وصف ان کا
یہ کبھی بے وفا نہیں ہوتیں
ہم ہی مردہ ضمیر لوگ ہیں بس
صرف الزام دیتے رہتے ہیں
بولتے ہیں برا اداسی کو
اس سے آنکھیں ملا کے دیکھو تو
کتنی معصوم ہے اداسی یہ
جاں سے پیارے جو لوگ ہوتے ہیں
جو کہ بچھڑے ہوئے ہوں مدت سے
بس انہی کے سبب اداسی یہ
ہم کو جتنا اداس رکھتی ہے
ان کو اتنا ہی پاس رکھتی ہے!
یار یہ جو اداسیاں ہیں ناں
ان کو محسوس کر کے دیکھو ناں
یہ کوئی بے سبب نہیں ہوتیں!
(زین شکیل)

No comments:

Post a Comment