1737
میں "مرھٹے" دہلی پر حملہ آور ھوئے.. بادشاھوں کی کمزوری اور امراء کی خود غرضی کے باعث مرھٹوں کو قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا موقع مل گیا.. مرھٹوں کے مظالم نے شاہ ولی اللہ دھلوی ' شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دل دھلادیئے.. ان مظالم کی ایک طویل و شرمناک داستان ھے.. بنگال کے مشہور شاعر گنگا رام نے لکھا..
"برگیوں (مرھٹوں) نے دیہاتیوں کو لوٹنا شروع کردیا.. کچھ لوگوں کے
انہوں نے ھاتھ ' ناک اور کان کاٹ لئے.. خوبصورت عورتوں کو وہ رسیوں میں باندھ کر لے گئے.. عورتیں چیخیں مارتی تھیں.. انہوں نے ھر طرف آگ لگادی اور ھر طرف لوٹ مار کرتے ھوئے گھومے.."
ان حالات میں لوگوں کو اپنی زندگی وبال محسوس ھونے لگی.. شاہ ولی اللہ دھلوی نے احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی کہ وہ ھندوستان آکر مرھٹوں کے تسلط سے نجات دلائے.. احمد شاہ ابدالی ھندوستان آیا اور پانی پت کے مقام پر مرھٹوں کی قوت سے ٹکرایا..
اکتوبر 1760 سے جنوری 1761 تک مرھٹوں کی اتحادی افواج مختلف مقامات پر ابدالی لشکر سے لڑتی رھیں.. مرھٹوں کی اتحادی افواج میں مسلمانوں کا ایک سردار "ابراھیم خان گاردی" بھی تھا جو اپنے ساتھ 2 ھزار سوار اور 9 ھزار پیدل فوج لایا تھا..
آخری لڑائی میں مرھٹوں کی اتحادی افواج کا سپہ سالار "بسواں راؤ" مارا گیا.. ابدالی کے لشکر نے اتحادی لشکر کا قتل عام شروع کردیا.. مرھٹوں کی کمر توڑ دی گئی تو احمد شاہ ابدالی نے تلوار نیام میں ڈال دی.. شکست خوردہ اتحادی افواج کے گرفتار ھونے والے سرداروں اور فوجیوں میں 11 ھزار فوجی مہیا کرنے والا مسلمان سردار ابراھیم خان گاردی بھی شامل تھا..
جب ابراھیم خان گاردی کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو احمد شاہ ابدالی نے نفرت آمیز لہجے میں اس سے پوچھا.. "کہو خان صاحب ! کیا حال ھے..؟ کس طرح تشریف آوری ھوئی..؟"
ابراھیم گاردی نے کہا.. "میں ایک جاں فروش سپاہی ھوں.. حضور جان بخشی کریں گے تو اسی طرح حق نمک ادا کروں گا.."
غصے سے احمد شاہ ابدالی کا چہرہ سرخ ھوگیا اور کہا.. "گاردی ! جاں فروشوں کی جان بخشی ھوسکتی ھے لیکن ایمان فروش دنیا میں رھنے کے قابل نہیں ھوتے..!!"
یہ تاریخی جملہ کہنے کے بعد احمد شاہ ابدالی نے حکم دیا.. "اس ایمان فروش کو میری آنکھوں سے دور کرکے صفحہ ھستی سے مٹادیا جائے.."
ھمیں اپنی تاریخ میں ابراھیم خان گاردی جیسے ایمان فروش جگہ جگہ ملتے ھیں.. آج کے دور میں بھی ھم انہی ایمان فروشوں میں گھرے ھوئے ھیں..
آج عالم اسلام کو ایک بار پھر احمد شاہ ابدالی کی ضرورت ھے جو ایمان فروشوں کو بھولا ھوا سبق یاد دلاسکے کہ جاں فروشوں کی جان بخشی تو ھوسکتی ھے لیکن ایمان فروشوں کی نہیں________!!
~¤ عامر عبداللہ ¤~
No comments:
Post a Comment