میرا فواد چوہدری صاحب سے ایک سیدھا سا سوال ہے۔
قادیانیوں کا مذہب کونسا ہے؟
پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، فراڈیوں کے نہیں۔
پاکستان میں بسنے والے تمام اقلیتی مذاہب بڑے فخر سے اپنے اپنے مذہب پر قائم ہیں، ان کی واضح شناخت ہے، آئین میں ان کے حقوق کی ضمانت ہے۔ آئین کے مطابق اقلیت کا لفظ ہندو، سکھ، پارسی، یہودی، عیسائی پر تو لاگو ہے، مگر ”قادیانی“ اقلیت میں نہیں آتے۔
فواد چوہدری سے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیاآپ پاک فوج کے کرنل کی وردی پہن کر اپنا تعارف فوجی افسر کی حیثیت سے کرواسکتے ہیں؟
فوج نے دیکھ لیا تو اتنی کٹ مارے گی کہ سارا ”سیکولر ازم“ ہر خارجی راستے سے باہر آجائے گا۔ غیر فوجی کیلئے، فوج کی وردی پہن کر خود کو افسر ظاہر کرنا، اسکا حق نہیں، بلکہ قانونی جرم ہے۔
قادیانیوں کا مسئلہ ہی یہی ہے، کہ نہ تو وہ مسلمان ہیں اور نہ ہی قانونی طور پر اقلیت، کیونکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، مسلمانوں کی شناخت چوری کرتے ہیں، اسلام کے ٹھیکیدار بنتے ہیں، مگر نہ تو مسلمان ہیں، نہ ہندو، نہ عیسائی، نہ یہودی اور نہ ہی قانوناً ایک اقلیت۔ بلکہ قانون اور آئین کے لحاظ سے یہ سب فراڈیے ہیں۔
قادیانی صرف اس وقت اقلیت تصور کیے جائیں گے اور اقلیت کے حقوق پائیں گے کہ جب وہ خود کو اسلام سے خارج ایک الگ مذہب قرار دیں، خود کو غیر مسلم تسلیم کریں، مسلمانوں کی شناخت اور اسلام کی نمائندگی ترک کریں، اور اپنی جعلسازی، دھوکے بازی اور فراڈ کو ترک کریں۔
دنیا کے کسی ملک، ادارے یا قانون میں کسی فراڈیے کیلئے کوئی نرمی نہیں ہے۔ یہاں بات انسانی حقوق کی نہیں، بلکہ آئین و قانون و شریعت کی بالادستی کی ہے۔ قادیانی شریعت و اسلام کا بھی مذاق اڑاتے ہیں، آئین و قانون کی بھی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور ایک فراڈ ہونے کے باوجود خود کو مسلمان کہنے سے باز نہیں آتے۔
اب فواد چوہدری صاحب، جناب ذہین و فطین وزیر اطلاعات، ماہر قانون دان، ترجمان حکومت پاکستان، داخلی و خارجی و قانونی امور کے تجزیہ نگار۔۔۔ ذرا آسان لفظوں میں ہمیں ایک مرتبہ پھر بتا دیں کہ قادیانیوں کا مذہب کیا ہے، اور کیا یہ فراڈیے آئین و قانون کے تحت اقلیت کے زمرے میں آتے ہیں، یا قانون کی زد میں؟؟؟
فواد چوہدری صاحب، ایک قادیانی کو مشیر مالیات لگانے کا دفاع اس طرح کرتے ہیں کہ قائداعظم نے بھی تو ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ مقرر کیا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق قادیانیوں کو کافر اور غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا تھا، اور ان کی پاکستان دشمنی کھل کر سامنے نہیں آئی تھی۔
اس کے علاوہ قائداعظم نے اس وقت بحالت مجبوری ایسے کئی اقدامات قبول کرلیے تھے کہ جن کو وہ آگے جا کر مکمل طور پر تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ مثلاً پاکستان کا "Dominion Status" ، برٹش حکومت کا نظام اور کرنسی، انگریزی قوانین، انگریزی نظام تعلیم وغیرہ۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قائداعظم ان پر راضی تھے۔
”نئے پاکستان“ کے قیام کے فوراً بعد قائداعظم نے جو سب سے پہلا کام کیا تھا وہ اس ملک کی نظریاتی اور روحانی سمت متعین کرنے کیلئے علامہ محمد اسد کی سربراہی میں ”ادارہ برائے تعمیر نو فکر اسلامی“ قائم کیا تھا، کہ جو آگے جا کر قرارداد مقاصد کی شکل میں سامنے آیا۔
کیا آج کے ”نئے پاکستان“ میں ایسا کچھ ہوگا؟؟؟
- Zaid Zaman Hamid
No comments:
Post a Comment